خالق کائنات نے کوئی بھی تخلیق بے مقصد نہیں کی، خواہ اس کا تعلق حیوانات سے ہو، نباتات سے ہو یا پھر جمادات سے۔ رب کائنات اپنی تخلیق کی افادیت ومقصدیت سے خوب واقف ہے، خواہ دیکھنے میں وہ ہمیں کتنی ہی بُری کیوں نہ لگے۔
زمانہ جاہلیت میں جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی، تو اسے زندہ زمین میں دفنا یاجاتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر وہ لوگ شرمندگی محسوس کرتے تھے اور سخت غصہ ہوتے تھے۔ لڑکی کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا، جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی تھی، تو وہ لوگ گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ بیٹی کو نحوست سمجھا جاتا تھا اور جب ان میں سے کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا تھا، تو خوشیاں منائی جاتی تھیں۔ لڑکے کی پیدائش پر خوشی کے شاد یانے بجائے جاتے تھے۔ کیونکہ وہ لڑکا ہوتا تھا۔
ہمارے بعض گھرانوں میں آج بھی زمانہ جہالیت کا رواج چلا آرہا ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر افسوس اور لڑکے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عرب کے سنگ دلانہ اور وحشیانہ طرز عمل سے تو دنیا خوب واقف ہے کہ وہ لڑکی کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے اور ایسا کرنے پر فخر بھی کرتے تھے، لیکن اگر بہ نظر عمیق جائزہ لیا جائے، تو یہاں سوات میں لڑکیوں کی پیدائش پر کون سے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ کیا یہ بات ہم کو بہ طور انسان اور مسلمان زیب دیتی ہے کہ ہم بیٹی کی ولادت پر افسوس کریں؟
ہمارے معاشرے میں کسی کے ہاں ایک بیٹی جنم لے، تو گھر کے مرد اور خاص کر بڑی عمر کی خواتین کو اتنا صدمہ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بڑی بلا یا آفت آگئی ہو اور اس کی ذمے دار وہ ماں ہو جس نے بدنصیب بیٹی کو جنم دیا ہے۔ پھر اس کے بعد ایک ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیٹی کو منحوس کہا جاتا ہے اور اس کی ماں کو طرح طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں کہ بیٹی کو ہی کیوں جنم دیا؟ بیٹاکیوں پیدا نہیں کیا؟ حالاں کہ یہ سب اس بے چاری کے ہاتھ میں تھوڑا ہے۔ یہ تو اللہ کا کام ہے، جسے چاہے بیٹا دے جسے چاہے بیٹی۔ سائنس بھی یہی کہتا ہے کہ اولاد نرینہ کی پیدائش میں عورت کاکوئی کردار نہیں، مگر پھر بھی ہمار امعاشرہ اس بیٹی کو پیدا کرنے والی عورت کو طعنے دیتا ہے۔ اس کو ہر طرف سے پریشان کیا جاتا ہے۔
ہر معاشرہ بیٹا چاہتا ہے۔ خاص کر پختون معاشرہ میں ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا پیدا ہوجائے، بیٹی نہیں۔ کیون کہ سب بیٹے کو پسند کرتے ہیں اور بیٹی سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے معاشرہ میں جس عورت کی زیادہ بیٹیاں ہوں، شوہر اُسے پسند نہیں کرتا اور سسرال والے بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ ہر کوئی اسے منحوس کہتا ہے۔ کیوں کہ اس کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہوتا ہے اور اس میں بہت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پہلے سے ہی خاتون بے چاری کو دھمکا دیتے ہیں۔ اگر بیٹی کو جنم دیا تو پھر گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر کئی خواتین کو طلاق بھی دیا جاچکا ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں تو بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا جب کہ سائنس کی ترقی نے اب کام اور بھی آسان کر دیا ہے۔ الٹراساؤنڈ کے ذریعے معلوم کروایا جاتا ہے کہ بیٹا ہے یا بیٹی۔ اگر بیٹی ہو، توکئی جگہوں پر اسقاط حمل بھی کیا جاتا ہے، جس کی اجازت مذہب دیتا ہے اور نہ قانون، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ زیادتی بھی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اس مذموم فعل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے یہ بدقسمت لوگ اللہ کی رحمت سے اتنا بے زار کیوں ہیں؟ آخر بیٹی اللہ کی رحمت ہے اور خود کو مسلمان کہلانے والے اللہ کی اس رحمت پہ رنج وغم کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟
ایک یہ بھی عورت ذات کی بدقسمتی ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے مختلف معاشرے مرد کو اہمیت دیتے چلے آ رہے ہیں۔ سو ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہی کرنے میں عار محسوس نہیں کر رہا۔ وہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایک لڑکے کو اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے اور لڑکی کو کچھ بھی نہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ بیٹیوں کی پرورش کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ روایت ہے کہ’’بیٹیاں تمھاری نیکیاں ہیں اور بیٹے نعمت ہیں۔‘‘ اب وہ لوگ خود سوچیں جو بیٹی کی پیدائش پر افسوس اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں اور بیٹے پر بے حدخوشی کا اظہار۔ بیٹی کی پیدائش پر بھی جائز خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسا کہ بیٹے کی ولادت پر کیا جاتا ہے اور اس عورت کو بابرکت اور مبارک فرمایا گیا ہے جس کے ہاں پہلی اولاد بیٹی ہو۔ اسلام نے عورت کو بہت عزت اور توقیر دی ہے۔عورت کو ماں، بہن، بیٹی کے مقدس رشتوں سے موسوم کیا ہے۔ آج کی پیدا ہونے والی بیٹی کل کی ماں ہے۔ اس کی رضا بخشش کا سبب، اس کی دعا قبولیت کا ذریعہ، اس کو عزت واحترام سے دیکھنا ثواب گردانا جاتا ہے۔ اس کی خدمت جنت کا راستہ ہے۔ یہ آج پیدا ہونے والی لڑکی ہی تو ہے جو کل بڑی ہوکر ماں کہلاتی ہے اور اس کے قدموں کے نیچے پھر جنت ہوتی ہے۔
جاتے جاتے صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ خدارا، آج عالمی یوم نسواں کے موقع پر بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کا اہتمام کرنا، وہاں بیٹھ کر گپ شپ اور عورتوں کے حقوق پر گرما گرم بحث کرنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ وہاں کی جانے والی باتوں پر عمل در آمد کی بھی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس دن کے گزرنے کے ساتھ اگلے سال آٹھ مارچ تک عورت ایک بار پھر پس پردہ چلی جائے اور اگلے سال ٹھیک مقررہ تاریخ پر ایک بار پھر گرما گرم بحث ہوں۔
1,518 total views, 2 views today