اُوشو،مٹلتان اور مہوڈنڈ سوات کی وسیع و فراخ وادی کے حسین گوشے ہیں جہاں کالام کے دل فزاء مقام سے جیپ یا پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہلے اُوشو، مٹلتان،گلیشئیراورپھر مہوڈنڈ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کالام سے اُوشو قریباً 10کلومیٹر، مٹلتان 13 کلومیٹر اور مہوڈنڈ 37 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کالام میں بنڑکے مقام پر ایک پختہ سڑک مشرق کی طرف اُوشو اور مٹلتان ہوتے ہوئے مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جب کہ دوسری سڑک شمال مغرب کی طرف اُتروڑ اور گبرال کی سمت جاتی ہے۔
کالام سے روانہ ہو کر بنڑ(جنگل) کے مقام پر اُوشو کی سڑک میں داخل ہوتے ہی گھنے جنگلات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں حسین قدرتی سبزہ زاروں میں سیاح اہل خانہ کے ساتھ آرام کرتے یا پِک نِک مناتے ہوئے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ شاہِ بلوط کے گھنے جنگلات کے بیچوں بیچ سڑک پر آگے بڑھتے ہوئے ایک عجیب قسم کی خوشی اورشیریں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ دل میں نئی اُمنگ اور نیا ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ مٹلتان اور مہوڈنڈ پہنچنے سے پہلے آپ اُوشو کی گل رنگ وادی میں داخل ہوں گے جو حسن و جمال کا ایک دل نشین منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں ایک خوب صورت ہوٹل’’ اوشو‘‘ کے نام سے دریائے اُوشو کے عین کنارے پر واقع ہے۔ اُوشو کی مہکتی ہوئی وادی کے نظارے اس قدر دل فریب ہیں کہ یہاں ٹھہرنے کے لئے انسان کا دل مچل مچل جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر مکانات دیار کی قیمتی لکڑی سے بنائے گئے ہیں جو اس خوب صورت وادی کے طلسماتی مناظر میں کسی پرستان کی وادی کا عکس پیش کرتے ہیں۔ اُوشو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر مٹلتان کی حسین و دل کش مہکتی ہوئی وادی سیاحوں کے لئے اپنے دامن کو وا کئے ہوئے ہے۔ یہ وادی چاروں جانب سے بلند و بالا اورسرسبز و شاداب پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ پہاڑ اتنے اُونچے ہیں کہ آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ سارے پہاڑ سفید برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ آسمان پر سفید اور کالے بادلوں کے ٹکڑے اُڑتے سائبان کی مانند پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خوب صورت موسم میں بادلوں کے یہ ٹکڑے ایک انتہائی حسین اور لطیف منظر کو جنم دیتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ اس دل کش منظر کو مسلسل دیکھتا چلا جائے اور اس کی ساری خوب صورتی اور دل رُبائی کو آنکھوں کے ذریعے دل میں جذب کرلیا جائے۔ یہاں ہر وقت سرد ہوا چلتی ہے جس میں پُر کیف خوش بو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں بھی یہاں انسان کو سردی کا احساس ہوتا ہے۔
یہ علاقہ ’’سوات کوہستان‘‘ میں شامل ہے اور یہاں کے لوگوں کی زبان کوہستانی ہے لیکن پشتو عام بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کی کل آبادی ملا کر قریباً بیس پچیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر مکان پہاڑوں میں واقع ہیں جو تسبیح کے بکھرے دانوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ مکانات عام طور پر دومنزلہ ہیں جن میں پتھر اور لکڑی کا استعمال زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی روایتی معاشرتی اقدار کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ سیاحوں کی عزت اور احترام یہاں کی روایات میں شامل ہے۔ مقامی آبادی کا گزارہ آلو کی کاشت پر ہے۔ اکتوبر ، نومبر کے مہینوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور تمام راستے دسمبر کے وسط سے فروری کے آخر تک بندہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں سردیوں میں اتنی زیادہ برف پڑتی ہے کہ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ بشمول کالام اور اردگرد کے تمام علاقے سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے کٹ جاتے ہیں۔ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور اُن ہی سے دودھ حاصل کرتے ہیں۔ موسمِ سرما کے اوائل میں اپنے مویشیوں کی خاطر صوبہ سرحد کے میدانی علاقوں چارسدہ، مردان اور صوابی وغیرہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔
مٹلتان کی وجۂ تسمیہ کافی دل چسپ ہے۔ مٹل دراصل کوہستانی زبان میں سفید مٹی کو کہتے ہیں اور یہاں چوں کہ سفید مٹی کی بہتات ہے اس لئے اسی نسبت سے یہاں کا نام مٹلتان پڑ گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں سفید مٹی زیادہ ہو۔ اس سفید مٹی کو یہاں کے لوگ بہ طور چونا بھی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ سردیوں میں یہاں گھروں میں آتش دانوں میں آگ مسلسل روشن رہتی ہے اور چمنیوں سے دھوئیں کی وجہ سے مکانوں کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں۔ موسم سرما کے اختتام پر مکانوں کو ’’مٹل ‘‘ سے دوبارہ اُجال لیا جاتا ہے۔
مٹلتان کا چھوٹا سا بازار کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ دُکانوں میں زیادہ تر مقامی لوگوں کے لئے روز مرہ ضرورت کی اشیاء دست یاب ہوتی ہیں۔ مٹلتان میں سیاحتی سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔ صرف ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس اور ایک نچلے درجہ کا ہوٹل ’’باغیچہ‘‘ ہے لیکن کالام سے قریب ہونے کی وجہ سے قیام و طعام کے لئے کالام بھی بروقت واپسی ممکن ہے۔
اُوشو اور مٹلتان میں آلو کے علاوہ سیب اور اخروٹ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کے سیب اپنی لذت اور مٹھاس کے لئے خاص طور پر مشہور ہیں۔ اخروٹ تو یہاں اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں کہ یہاں ایک مقام کا نام ہی ’’چوراٹ‘‘ مشہور ہو گیا ہے۔چوراٹ کوہستانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی اخروٹ کے ہیں۔
مٹلتان کے ایک طرف دریائے اُوشو بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا بہ رہا ہے اور دوسری طرف ایک ندی اچھلتی کودتی ہوئی دریائے اُوشو کی جانب بے قراری سے بہتی چلی جاتی ہے۔ یہ دونوں آپس میں مدغم ہوکر کالام میں دریائے سوات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔مٹلتان کے قریب ہی ایک گلیشیئر ہے جس کی مناسبت سے اس علاقہ کو بھی گلیشیئر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ گلیشیئر سیاحوں کے لئے خصوصی دل چسپی اور لطف اندوزی کا باعث بنتا ہے۔ موسمِ گرما میں یہاں سیاحوں کا ایک جمِ غفیر صبح سے سہ پہر تک موجود رہتا ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لئے یہاں اشیائے خورد و نوش کا وافر انتظام ہے۔ مٹلتان سے قریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر جھیل ’’مہو ڈنڈ‘‘ ہے جو ایک اور مشہور و معروف تفریح گاہ ہے۔ اس جھیل کا لاثانی حُسن اور غیر معمولی خوب صورتی انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور ایک ابدی احساس بخش دیتی ہے۔ ’’مہوڈنڈ‘‘ حقیقتاً سراپا حُسن ہے، دل کشی ہے اور قدرتی رعنائیوں سے معمور فطرت کی فیاضیوں کا ایک لاثانی شاہ کار ہے۔ اگر آپ کیمپنگ کے شائق ہیں تو جھیل کے کنارے سبزہ زار پر بلاخوف و خطر اپنا خیمہ نصب کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ ٹریکنگ کے شائق ہیں تو وسیع و عریض حسین سبزہ زار آپ کے منتظر ہیں۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں او ر اسی کی وجہ سے اس کا نام مہوڈنڈ (یعنی مچھلیوں کی جھیل پڑ گیا ہے)۔ ٹراؤٹ مچھلی اپنی لذت اور ذائقے کے لحاظ سے دنیا کی چار پانچ بہترین مچھلیوں میں شمار ہوتی ہے۔ مچھلی کے شکار کے لئے اجازت نامہ لینا ضروری ہے جو محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں سے باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔بعض غیر ملکی سیاحوں کا کہنا ہے کہ مہوڈنڈبہت خوب صورت جھیل ہے اور اس کا طلسماتی حسن اور نیلگوں پُرسکوت پانی انسان کو اپنی طرف کھینچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مہوڈنڈ تک پہنچنے کے لئے کالام سے جیپ کرایہ پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ خصوصی طور پر جیپ بُک نہیں کرانا چاہتے تو چھ سات سیاح مل کر بھی جیپ کرایہ پر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح سیاحوں کوکافی بچت ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل مہوڈنڈ میں رات کے قیام کے لئے کوئی ہوٹل موجود نہیں تھا،اب یہاں فرانسیسی کمرشل ادارے کے تعاون سے رہائشی انتظامات کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ چناں چہ شب بسری کی سہولت بھی میسر آجائے گی۔ مہو ڈنڈ کی سیر و سیاحت کے لئے صبح سویرے ہی کالام سے روانہ ہونا چاہئے اور شام کو جلد واپسی ممکن بنانی چاہئے تاکہ سیاح کالام میں اپنے ہوٹل بروقت پہنچ سکیں۔ مہوڈنڈ جاتے ہوئے راستے میں بہت خوب صورت مقامات آتے ہیں اس لئے اگر آپ ان مقامات پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں تو آپ کا سفر مزید پُر لطف بن سکتا ہے۔ ان مقامات میں گلیشئر، پلوگا اور آب شار خصوصی طور پر شامل ہیں۔ آب شار نامی مقام اتنا خوب صورت و دل پزیر ہے کہ مہوڈنڈ جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے اس مقام پر بے اختیار رُک جاتی ہیں اور سیاح پندرہ سو فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے اس طویل اور پُر عظمت آب شار کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ آب شار اس قدر دل فریب اور مسحور کُن ہے کہ بعض سیاح محض اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھٹن فاصلہ طے کرکے آتے ہیں اس مقام کا نام بھی اس طویل آب شار کی وجہ سے ’’آب شار‘‘ پڑ گیا ہے۔
کالام سے مٹلتان تک سڑک کی حالت کسی حد تک عمدہ ہے لیکن مہوڈنڈ تک کا سارا راستہ بہت خستہ اور خراب ہے جگہ جگہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے اور جیپ، ڈاٹسن یا بس کے ذریعے ہی یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہلکی پھلکی گاڑی کا اس سڑک پر چلے جانا ناممکن ہے۔ وادئ سوات کا یہ گوشہ بلاشبہ فطرت کے اصل رنگ و روپ میں ہے اور اس کی بے پناہ خوب صورتی جمالیاتی ذوق کے حامل سیاحوں کوتسکین اور سیرابی کا ایک بھرپُور احساس دلاتی ہے۔
1,616 total views, 2 views today