تحریر : وطن زیب یوسفزئی
بے شک سیاست عبادت ہے لیکن اجکل نہیں ۔جب حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہوگیا تو لوگوں نے سربراہ کے حیثیت سے حضرت عمرؓ کے نام کا انتخاب کیا جب عمرؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوگا یہ بہت بڑا کا م ہے ۔لیکن لوگو ں نے مجبور کیا اور آخرکا ر عمرؓمان گئے۔ایک دفعہ رات کے وقت عمرؓ اپنے گھر سے اس نیت کے ساتھ نکلے کہ ہمارے دور حکومت میں کوئی مشکل میں نہ ہو ۔راستے میں حضرت عمرؓ نے ایک گھر دیکھا جس سے بچوں کی رونے کی اوازیں آرہی تھی۔آپؓ نے ان کو آواز دی ۔گھر سے بچوں کی ماں نکلی ۔آپؓ نے سوال کیا کہ بچے کیوں رو رہے ہے ۔ تو ماں نے کہا کہ گھر میں کھانے پینے کا کچھ بھی نہیں ہے۔ تو آپؓ نے کہا کہ تب تک میں یہاں سے نہیں جاونگا جب تک میں ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہ دیکھو۔آپؓ نے فوراً بیت المال سے ان کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کیا آپؓ نے کہا کہ یہ میں نے اپ لوگوں پر احسان نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی اس کے بارے میں مجھ سے پوچھے گا ۔ اور اجکل لوگ کسی ایک جماعت کو ووٹ دے تو پھر دوسرے جما عت والے کہتے ہیں کہ اپ نے مجھے ووٹ نہیں دیا۔یہ ہے اج کل کی سیاست ۔ اور اب ہمارے ملک میں ایک ٹرینڈ بناہوا ہے گالم گلوچ کا میں نے اس الیکشن کیمپین میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جس سے ہمیں گالم گلوچ کی توقع نہ تھی تعلیم کی باوجود انہوں نے ایسی زبان استعمال کی کہ اس سے ہمارے انے والے نسلوں پر بہت برا اثر پڑے گا ۔پاکستان میں جب بھی علماکرام کی بات کی جاتی ہے تو ان میں جمعیت علمااسلام ف کے سربراہ کا نام سر فہرست ہے لیکن قران اور احادیث سے واقف ہونے کے باوجود انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے چیرمین کو یہودیوں کا ایجنٹ کہا ہم بچپن سے یہ سنتے ارہے ہیں کہ جب کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے ۔ تو پھر ہم کس سے گلہ کریں۔ اور اسکے ساتھ ساتھ ایک وزیر اعلی نے بھی ایسی زبان استعمال کی کہ جن سے لوگوں کو بہت دکھ پہنچا ۔اور اسطرح ہمارے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی الیکشن کمپین کے دوران گندی زبان کا استعمال کیا ۔ان لوگو ں کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا بھی ذمہ دار ہے ۔ کہ وہ کیوں ان لوگوں کی تقریریں نشر کرتا ہیں ۔ا ور سپریم کورٹ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ایکشن لے تاکہ ہماری انے والے سیاستدان ایسی زبان استعما ل کرنے سے گریز کریں۔اور اس گندگی زبا ن سے پوری دنیا کو غلط پیغام جاتا ہے بطور ایک عام ادمی کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ووٹ دیں کہ وہ کل اپ کے لئے پالیمنٹ کے فلور پر ایسی قانون سازی کرے کہ جس سے ملک اگے جائیں نہ کہ ووٹ کے بدلے میں اپ کو گالم گلوچ دیں۔
1,590 total views, 2 views today