تحریر : غفور خان عادل
مہنگائی کے سیلاب کے آگے بندھ باندھ کر لوگوں کو معیاری اشیاء مناسب نرخوں پر فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت یہ ذمہ داری عوامی اُمنگوں کے مطابق پورا نہیں کرتی ، مہنگائی کا سیلاب کہاں سے اُمڈ آیا ہے اور اس سیلاب کے آگے بندھ باندھنے کا اصل مقام کونسا ہے ؟ اگر اس پر سوچا جائے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا کسی نہ کسی صورت حکمرانوں سے وابستگی ضرور ہوتی ہے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے بھی ایک مافیا ہے جو اشیائے خوردونوش کو اسٹاک کرکے پھر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور یہ مافیا بڑے پیمانے پر وہ اشیاء مارکیٹ سے اُٹھاکر ذخیرہ کر دیتے ہیں اور جب مارکیٹ میں وہی چیز دستیاب نہیں ہوتی تو پھرمافیا وہ اپنی مرضی کے نرخ کے مطابق مارکیٹ میں فروخت کرنے کیلئے بھیج دیتے ہیں اور یہ طریقہ جاری رہتا ہے
خواہ کسی کی بھی حکومت ہو موجودہ حکومت میں بھی یہی مافیا سرگرم عمل ہے اور ایک اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم عمران خان کے رائٹ ہینڈ کو فائدہ دینے کیلئے چینی کے ساتھ بھی یہی تماشہ کیا گیا تاہم کوئی بھی حکومت ہو لیکن مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں تحریک انصاف نے جب الیکشن مہم کے دوران عوام کو نیا پاکستان ، تبدیلی اور عام لوگوں کی حالت بہتر بنانے کا نعرہ دیا تو لوگوں نے 25 جولائی کو اس اُمید کے ساتھ ان کو بھاری مینڈیٹ دیا کہ شاید تبدیلی سرکاری ان کے دکھوں کا مداوا بن سکے گی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور تحریک انصاف برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے عوام پر مہنگائی کے ڈرون حملے شروع کر دئیے عوام جو پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے تبدیلی سرکار نے ان کو مہنگائی کے دلدل سے نکالنے کے بجائے ان کو مزید دلدل کی طرف دھکیل دیا ہے اور روزانہ حکومت کی طرف سے روزمرہ اشیاء کا نرخ بڑھانے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اگر حکومت کی گزشتہ 55 دنوں کا موازنہ کیا جائے تو ان دنوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں پر جو مہنگائی مسلط کر دی ہے گزشتہ ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی اور خصوصاً پٹرولیم مصنوعات ، گیس اور بجلی کے نرخوں میں جو ہوشربا اضافہ ہو رہاہے وہ برداشت سے باہر ہے اور لوگوں کی تبدیلی سرکاری کی طرف سے مسلط کردہ مہنگائی کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں بلکہ وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں کیونکہ اگر ہمارے ہاں مہنگائی میں اضافہ کیا جاتا ہے
تو عام لوگوں کو برا حال ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایک اور اہم مسئلہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری بھی ہے اور اس کی اصل وجہ مخصوص خاندانوں اور مخصوص لوگوں کی سرکاری ملازمتوں پر برا جمان ہونا ہے کیونکہ عام طبقے کے لوگ سرکاری ملازمت کا تصور بھی نہیں کر سکتے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سرکاری نوکریوں کا فائدہ ان مخصوص لوگوں کو پہنچتا ہے خواہ وہ پرانا پاکستان ہو یا نیا پاکستان ملک کے چلانے والوں کے صرف چہرے بدل جاتے ہیں طریقہ کار نہیں سرکاری نوکریوں میں اپنوں کو نوازا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری کا مسئلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت وقت اگر نرخوں میں اضافے کے پیش نظر عوام کو ریلیف دیتے ہیں تو وہ صرف سرکاری ملازمین تک محدود ہوتے ہیں کیونکہ شرح مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اس پر اکتفا کر دیتے ہیں حالانکہ سرکاری ملازمین کو جو ریلیف ملتی ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ لوگ کیا کریں گے جو سرکاری ملازم نہیں بلکہ حالات نے ان کو بیروزگاری کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد سرکاری ملازمین سے کئی زیادہ ہے روزمرہ اشیاء کے نرخوں میں اضافے کا براہ راست اثر عام لوگوں پر پڑتا ہے
اگر گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر شرح کرایہ میں اضافہ ہوتاہے اور اس کے ساتھ دیگر معمولات زندگی بھی متاثر ہوتی ہے تاہم شرح بیروزگاری میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھنے سے مزدورطبقہ بھی شدید پریشانی ہیں اور لوگ بیروزگار ی کیوجہ سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں لیکن اس حوالے سے حکمرانوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتے ہیں یا نہیں آج ہمارے ہاں لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری اور مہنگائی ہے اور عوام کو اس سے نجات دلانے کیلئے حکومت کے ساتھ کونسا پروگرام ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ بیروزگاری اور مہنگائی کے آگے بندھ باندھنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے شرح مہنگائی میں تسلسل کے ساتھ اضافے نے لوگوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور آج بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو زندہ درگور کر رکھا ہے تحریک انصاف سے لوگوں نے کافی توقعات وابستہ کر رکھے ہیں اب آگے دیکھنا ہے کہ مستقبل میں عوام کے ساتھ کونسا کھیل کھیلاجارہا ہے ضرورت اس امر کی کہ حکومت عوام کو ہرشعبہ میں ریلیف دینے کیلئے وہ تمام اقدامات اُٹھائے جو ان مسائل کے حل میں مفید ثابت ہو سکے ۔ اگر بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات اُٹھائے جائے تو حکومت بڑھتی ہوئی بیروگاری کو قابو کر سکتی ہے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے تاکہ ملک کے کونے کونے میں فیکٹریاں اور کمپنیاں قائم ہو سکے اور حالات کیوجہ سے جو گاڑی رک گئی ہے تو ان کو رواں کیا جا سکے ۔
2,908 total views, 2 views today