تحریر : رشید احمد
ورلڈ بنک کی جانب سے پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے سبب ممکنہ پیدا ہونے والے خطرات اور ان سے ہونے والے نقصانات پر مشتمل کلائمیٹ چینج پروفائل آف پاکستان میں 145 چھوٹے بڑے شہر موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہیں جن چھوٹے بڑے شہروں میں موسمی تبدیلیوں کی شرح 16 تا 13 کے درمیان ہے ان میں ملاکنڈ بھی شامل ہے ملاکنڈ اور سوات کے پہاڑوں میں موجود گلیشیئر کی پگھلنے کیلئے مطلوبہ درجہ حرارت حیرت انگیز طور پر پوری دُنیا کے برعکس کم ہوئی ہے جس کے باعث گلیشیئر پگھلنے کا عمل انتہائی سست اور کم ہو چکا ہے جس کیوجہ سے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ متاثر اور زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ نیچے جا رہی ہے پاکستان میں پانی کی کمی اس وقت سنگین مسئلہ بن چکاہے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد فی کس پانی کی سالانہ دستیابی 5300مکعب تھی 2013 میں یہ 850 مکعب پر آ گئی اور اس میں بھی کمی آرہی ہے گو کہ آبادی بڑھنے کیوجہ سے بھی فی کس پانی کی سالانہ دستیابی کم ہو رہی ہے تاہم موسمی تبدیلیوں کا اس میں بڑا عمل دخل ہے ،
چیف جسٹس آف پاکستان نے منرل واٹر کمپنیوں کی جانب سے پچاس پیسے فی لیٹر حکومت کو دئیے اور یہی پانی 50 روپے فی لیٹر فروخت کرنے کے خلاف کیس کی سماعت میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے پر پنجاب حکومت کو کمپنیوں کے ساتھ بیٹھ کر پانی کی فی لیٹر قیمت طے کرنے اور کمپنیوں کے ٹربائل بند کرنے کی ہدایت کی تھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈز اکھٹا کرنے کی مہم اور حکومت کی طرف سے اندرون ، بیرون ملک پاکستانوں کو ڈیموں کی تعمیر میں مالی معاونت کرنے کی اپیل سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں پانی کے محفوظ استعمال کو یقینی اور اس کے ضیاع کو روکنے کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے تو چند سال بعد پانی کی قلت بہت زیادہ بڑھ جائے گی موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ورلڈ بنک کی رپورٹ میں سوات اور ملاکنڈ کے پہاڑوں میں موجود گلیشئر کے پگھلنے کیلئے درجہ حرارت کی کمی انتہائی تشویش کی بات ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے سوات کے بہاؤ اور اس میں پانی کی آمد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے سوات میں صدیوں سے پاک و صاف قدرتی چشموں کی 98 فیصد خشک ہو چکی ہے زیر زمین پانی کی سطح تیزی کیساتھ نیچے جا رہی ہے کنوئیں خشک ہوتے جا رہے ہیں اور پانی کے حصول کیلئے بہت زیادہ گہرائی میں کھدائی کرنا پڑ رہی ہے ،
مینگورہ شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس وقت شہر میں پانی کی قلت بہت بڑا مسئلہ ہے پانی کے ذخائر میں تیزی سے جو کمی آ رہی ہے یہ مستقبل کیلئے نہایت خطرے کی بات ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں پانی کے محفوظ استعمال کے حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے پانی کا جس طرح ضیاع کیا جا رہا ہے اس سے ہمارے لئے چند برسوں میں بہت زیادہ مسائل پیدا ہونے والے ہیں ۔ مینگورہ شہر میں ٹی ایم اے کے 54 ٹیوب ویلوں میں متعدد ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں جن ٹیوب ویلوں سے فی الوقت پانی سپلائی کیا جا رہا ہے اس کے استعداد میں بھی کمی آ رہی ہے ۔ اگر ہمیں فی کس 40 گیلن پانی روزانہ میسر ہے تو ہم 100 گیلن استعمال کر رہے ہیں ۔ میٹھا پانی گاڑیاں دھونے ، گلی کوچوں میں چھڑکاؤ کرنے باتھ رومز میں استعمال کرکے خود ہی پانی کی قلت کو دعوت دے رہے ہیں ۔
مینگورہ شہر میں واٹر سپلائی کی ذمہ داری واسا کے سپرد ہے اُن کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ شہر کے زیادہ تر محلوں میں واٹر سپلائی کی مین لائنیں بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جن سے روزانہ سینکڑوں گیلن پانی ضائع ہو رہا ہے ۔ ٹیوب ویلوں کے استعداد میں کافی کمی کے پیش نظر ان ٹیوب ویلوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح پانی کے نئے ذخائر کی تلاش اس وقت ناگزیر ہو چکی ہے ٹوٹے پائپ لائنوں کی مرمت اور تبدیلی سے سیکڑوں گیلن پانی بچایا جا سکتا ہے ۔ صوبائی حکومت نے باغ ڈھیرئ گریویٹی سکیم کا اعلان کیا ہے یہ ایک بڑا منصوبہ ہے وزیراعلیٰ کا تعلق چونکہ سوات سے ہے اور انہیں سوات میں پانی کی بڑھتی قلت کا احساس ہے اس لئے گریویٹی سکیم پر فوری طور پر کام کا آغاز کرنا چاہئے پانی کی قلت کے پیش نظر ہر فرد کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ پانی کے ضیاع کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے میٹھے پانی کو غیر ضروری کاموں میں استعمال سے گریز اور زیادہ سے زیادہ پانی بچا کر ہم اپنی مشکلات میں کمی لا سکتے ہیں واسا کو گلی کوچوں میں تھوڑے ، تھوڑے فاصلے پر قائم ان سٹینڈ پوسٹوں کو ختم کرنا چاہئے جن سے پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہو رہا ہے پانی کے بچاؤ کیلئے عوامی آگاہی مہم شروع کرکے لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا جائے کہ مستقبل میں پانی کے سنگین بحران سے بچنے کیلئے اپنے حصے کا کردار اد ا کر دیا جائے۔
2,276 total views, 2 views today