تحریر؛۔ وطن زیب
دنیا میں جانے پہچاننے والے وادی سوات کے خوبصورتی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اللہ تعالی نے اس وادی کو بے تحاشا حسن دیا ہے ان کے اب وہوا اونچے پہاڑ، سر سبز وادیاں خوبصورت ابشاریں اور ٹھنڈی پانی سے دنیا کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا اگر دیکھاجائے تو دنیا میں لوگ اپنے اپنے معیشت مضبوط کرنے کیلئے نئی نئی چیزیں ڈھونڈتے ہیں کہ ہم اپنا معیشت کس طرح مضبوط کریں ہم سب لوگوں کے سامنے ہے دنیا میں بہت سے ایسے ممالک موجود ہے جس کے معیشت صرف اور صرف سیاحت پر ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستا ن میں ایسے باتوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے جو یقینا قابل افسوس بات ہے سوات پاکستان میں ضم ہونے سے پہلے یعنی والی سوات کے دور حکومت میں باہر ممالک سے سیاح آتے تھے لیکن جب سوات پاکستان میں یعنی1969میں ضم ہوا تو یہاں پرباہر ممالک سے انے والے سیاحوں کے آمد میں بہت کمی ائیں اور اخر بات اس حد تک جاپہنچی کہ اب کوئی بھی غیر ملکی سیاح یہاں انے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں ائی ہے وہ سب کے سب دہشت گردوں کو شکست دینے میں ناکام ہوئے ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب سوات لوگوں کے پاس تین ایسی چیزیں ہیں جس پر وہ اپنا گزارہ کررہے ہیں جس میں پہلی نمبر پر سیاحت جس کے لئے سوات مشہور ہے دوسرے نمبر پر سوات میں آڑو کے پیدوارتیسری اور آخری نمبر پر باہر کی ممالک میں محنت مزدوری کرنا ہے جسے میں نے پہلے بیان کیا کہ سوات کے خوبصورتی کسی سے کم نہیں ہے اب بھی سوات میں ایسی جگہیں موجود ہے جو اج تک ایکسپلور نہیں ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں پر ہر جگہ چیک پوسٹس بنائے ہوئے ہے بے شک یہ ہمارے محافظ ہے لیکن بعض اوقات ان کے رویوں سے لوگ پریشان ہوتے ہے میرے پہلے بات کا مقصد یہ ہے کہ حکومت سوات کے سیاحتی مقامات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے دوسری بات یہ ہے کہ سوات پر اللہ تعالی نے ایک اور احسان کیا ہے سوات کے آڑو کے رنگ مٹھاس میں کوئی ثانی نہیں ہے حکومت کے زرعی شعبے میں عدم دلچسپی کے باعث پچھلے چار پانچ سالوں سے آڑو کی قیمت میں مسلل کمی واقع ہورہی ہے ایک طرف قدرتی آفات اور دوسری طرف حکومت کی اس رویہ نے کسانوں کو گھیر لیا ہے دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اب زیادہ لوگ نفسیاتی مریض بنے ہوئے ہے۔اس کے بعد بات اتی ہے باہر ممالک میں محنت مزدوری کی تو جب ہمارے سیاستدان باہر ممالک میں جاتے ہیں تو وہ جب واپس اتے ہے تو پاکستان عوام کو یہ قصیدے پڑھاتے ہے کہ ہمارا دورہ بہت کامیا ب تھا اور ہمارے بہت اچھے تعلقات ہے لیکن ہمارے حکمران یہ سوال ان سے نہیں کرتے کہ ہمارے ملک سے آئے ہوئے مزدور کاروں سے یہاں کیسے سلوک کیا جاتا ہے ایک غریب بندہ بہت مشکلوں سے اپنے لئے کچھ پیسے جمع کرتے ہے یا پھر کسی سے ادھار لیکر ویزہ خریدتے ہے جب وہ باہر چلاجاتا ہے تو سالوں تک وہ کام کرتے ہیں لیکن ان کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی اس کا ذمہ دار کون ہوسکتاہے ایک مزدور باہر کی ملک میں یتیم جیسی زندگی گزارتا ہے ایک باپ،بھائی اپنے ساری زندگی باہر ملک میں مزدوری کیلئے تیار ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کوئی مشکل نہ ہو اور اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہے کی کل وہ بچے ان کا سہارہ بن جائے لیکن یہ امید ہمیشہ کی طرح ادھورے رہ جاتے ہے اپ لوگوں کو پتہ ہے کہ اج کل تعلیم پر کتنا خرچہ اتا ہے لیکن جب یہ نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہے تو وہ پھر نوکری کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ایک طرف گھر کا خرچہ اور دوسری طرف بے روزگاری اس کشمکش میں پھر وہ نوجوان دو پیسوں کے خاطر دہشت گردوں کے ہتھے چڑجاتے ہے میرے خیا ل میں اگر حکومت ان تین چیزوں پر توجہ دیں تو نہ صرف سوات کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے بلکہ ملک کے معیشت میں بھی بہتری ائی گی۔
1,492 total views, 2 views today