فضل خالق خان
سوات کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے کئی حوالوں سے پوری دنیا میں منفرد اور باقی دنیا کی لوگوں کیلئے دلچسپی کا باعث بنایا ہوا ہے، یہاں کے خوبصورت سال کے چاروں موسم دیکھنے کے لائق ہیں اور ہر موسم کا الگ رنگ دیکھنے کیلئے سال بھر یہاں کے مختلف مقامات پر اندرون وبیرون ملک سے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، مختلف قسم کے پھل، پھول اور قدرتی جنگلات تو سوات کی وجہ شہرت ہے ہی لیکن آج ہم سوات کے ایک ایسے سپوت کا ذکر کریں گے جس کے منفرد ہنر نے نہ صرف اسے دنیا بھرمیں مشہور کررکھا ہے بلکہ سوات کی انفرادیت میں ایک اور اضافے کا باعث بھی ہے، سوات کا شمس الاقبال شمس جو خوبصورت رنگوں سے کھیلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کے اس ہنر سے اسلامی خطاطی کے ایسے ایسے رنگ قدرتی پتھروں، خشک میوہ جات، سبزیوں اور دیگر اشیاء جن پر لکھنا ممکن ہو پر بکھیرتا ہے جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، رنگ باتیں کرتے ہیں اس بات میں کتنی حقیقت ہے اسے دیکھنے کے لئے شمس الاقبال شمس کے فن پاروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو دیگر فنکاروں کی طرح ادھر ادھر کی چیزیں نہیں بلکہ کئی طرح کی رسم الخطوں کی مدد سے اپنے برش اور مخصوص قلموں کا استعمال کرکے اسلامی کیلیگرافی کے ذریعے آسمائے ربی، قرآنی آیات اور اردو، پشتو، اور فارسی کے اشعار کو جب دریائے
سوات سے اکھٹے کئے گئے پتھروں، مختلف درختوں کی چھالوں، سبزیات وغیرہ پر منتقل کرتے ہیں توانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، فن کی گہرائیوں میں ڈوب کراور تصوف کی روح لئے اسمائے حسنیٰ کو خوبصورت انداز میں نقش ونگار کے ساتھ مختلف چیزوں پر منتقل کرنا شمس الاقبال شمس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اور اب ان کا سب سے بڑا کارنامہ مخصوص درخت کی چھال پر پورے قرآن کو لکھنا ہے جس میں دو پارے مکمل کئے گئے ہیں اور شمس کا کہنا ہے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو باقی 28پارے بھی اسی طرح مکمل کریں گے۔(واضح رہے کہ اس سے قبل وہ ایک قرآن مکمل کرچکے ہیں جسے کچھ نوسرباز دھوکے سے ہتھیا کر برونائی کے سلطان قابوس تک پہنچا کر اس سے بڑا فائدہ اُٹھاچکے ہیں جس کا ذکر اس رپورٹ میں مفصل موجو د ہے)۔
یوں توبہت ساری قابل فخر ہستیوں کا تعلق وادی سوات سے ہے جن کی قابلیت کو ایک دنیا مانتی ہے لیکن انہی روشن ستاروں میں ”شمس الاقبال شمس“ کا اپنا ایک مقام ہے، ان کا تعلق ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے جنوب میں واقع علاقہ سیدوشریف سے ہے،شمس الاقبال پیشے کے اعتبار سے سرکاری ملازم ہیں جو اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، اْن کے والد الحاج فضل الرحمان صاحب جو فیضان سوات کے نام سے مشہور تھے، فیضان صاحب اپنے وقت کے پشتو، اردو، فارسی اورعربی زبان کے ماہر تھے، شاعری بھی کرتے تھے لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی اور وجہ شہرت ریاست سوات کے بادشاہ والی صاحب کے سرکاری دستاویزات کو اپنے ہاتھوں سے لکھنا ہے کیونکہ وہ بلا کے خوش نویس تھے،اپنی خوبصورت طرز تحریر کی وجہ سے وہ سوات سے شائع ہونے والے شعراء اور ادباء کی کتابوں کی کتابت بھی کرتے تھے اور ریاستی دور کے اکثر سرکاری احکامات جو اسٹامپ پیپر پر ہوا کرتے تھے انہی کے ہاتھ کی تحریروں سے مزین ہیں اور یہی فن ان سے ان کے ہونہار بیٹے شمس الاقبال کو منتقل ہوا جسے شمس الاقبال بہ مشکل اپنے ایک بیٹے کو منتقل کئے ہوئے ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ یہ خوبصورت فن شمس الاقبال تک ہی محدود رہے گا۔
خوبصورت فن کے حوالے ”فیملی“ کی شمس الاقبال سے ایک نشست ان کے کمرے میں رکھے ان کے خوبصورت فن پاروں کے درمیان میں ہوئی،شمس کا کہنا تھا کہ 1957 میں پیدائش ہوئی،ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، کیونکہ وہ خود کئی طرح کے علوم کے ماہر تھے، گورنمنٹ ہائی سکول شگئی سے میٹر ک پاس کرنے کے بعد گریجویشن جہانزیب کالج سوات سے مکمل کی،اس دوران بچپن سے لے کر اپنے والد صاحب کو خطاطی کا کام کرتے ہوئے مجھے بھی شوق پیدا ہوا کہ میں بھی اپنے والد کی طرح اچھا خوش نویس بنوں، والد کی رہنمائی میں شوق پور ا کرتا رہا۔ اس دورا ن سرکاری دستاویزات کولکھنے اور محفوظ کرنے کے کام پر مامور پشاور کے مشہور خطاط ایم ایم شریف جو سوات آ نے کے دوران میرے والدسے تعلق کی بناء پر کئی کئی دنوں تک ہمارے ہاں قیام کرتے تھے ان کی باقاعدہ شاگردی شروع کی اور مسلسل محنت اور ماہر اُستاد کی نگرانی میں اس قابل ہوا کہ آج شمس الاقبال خود فن خطاطی کے ایک ماہر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔
شمس نے بتایا کہ شوق کی تکمیل کے خاطر کمپیوٹر کا دور آنے سے قبل انہوں نے مقامی اخبارات بھی ہاتھوں سے لکھے، سکولوں کے پرچے اور مقامی ادباء کی تصانیف اور شعری مجموعوں کی کتابت بھی لکھی جبکہ مادر علمی جہانزیب کا لج کے سالانہ مجلہ ”ایلم“ کے بیشتر ایڈیشن بھی ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسلامی کیلیگرافی کے ماہر شمس الاقبال شمس کاکہنا ہے کہ 1977 میں پہلی مرتبہ”کدو“ پر لکھائی کی تھی جو42سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باؤجود ابھی تک اسی طرح محفوظ ہے،شمس الاقبال کا کہنا ہے کہ لکھنے کا بے تحاشہ شوق جنون کی حدتک رہا، اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ کتابت کاکام سوات کے مشہور تعلیمی درس گاہ جہانزیب کا لج کے سالانہ میگزین ”ایلم“ سے شروع کیا جسے ہمارے فن کی زبان میں چھوٹی لکھائی کہا جاتا ہے جبکہ کیلیگرافی جسے بڑی لکھائی کہا جاتا ہے کا آغاز 1982 میں کیا اور ایسی چیزوں پر آسمائے ربانی، آسمائے محمد ؐ،قرآنی آیات اور دیگر تحاریر لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو اس سے قبل سوات کی تاریخ میں کسی اور فن کار نے نہیں کیا تھا۔شمس الاقبال شمس کا کہنا ہے کہ میں نے اب تک ہر قسم کے پتھروں، سبزی مثلاً کدو، توری، بھٹہ،ہڈیوں، درختوں کی چھالوں، انڈے حتیٰ کہ جس چیز پر لکھنا ممکن تھا اس پر اپنے فن کو برش اور قلم کے ذریعے آزمایا، اب تک بڑا کام جو کیا ہے اس میں چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پوری سورۃ یاسین اور سورۃ مزمل تحریر کرنا شامل ہے۔
خطاطی میں مہارت حاصل کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اسلامی کیلیگرافی ایک ہنر ہے جسے سیکھنے کے لئے اس کا باقاعدہ کورس کیا جاتا ہے اس کے حروف تہجی کی مختلف تختیاں لکھی جاتی ہیں، مرکب اور مفرد حروف لکھنے کی بارہ تختیاں ہیں اگر کوئی اس کو اچھے طریقے سے لکھے تو اس کی لکھائی میں نکھار آجاتا ہے۔شمس الاقبال فن خطاطی کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں کہتے ہیں کہ اب تک تمام کام اپنی مدد آپ کے تحت کررہا ہوں، زندگی کا بیشتر سرمایہ اس فن کی نذر کرچکا ہوں جس کی وجہ سے بچے بھی اکثر شاکی رہتے ہیں، کیونکہ اس فن کو زندہ رکھنے کے لئے جو کام کررہا ہوں اس کے لئے بہت بڑے وسائل درکا رہیں، رنگ، برش، قلم اور پھر طرح طرح کی دیگر چیزوں کو اکھٹا کرنے کے لئے بہت کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے پھر جو کام تیار کرتا ہوں اس کو دیگر لوگوں کی نظر وں میں لانے کیلئے ایگزیبیشن کرانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،
انہوں نے ایک اہم بات بتائی کہ اس دوران کئی طرح کی لوگوں نے ان کے فن کا مالی فائدہ اُٹھانے کیلئے ان سے بڑے دھوکے بھی کئے اور ایک واقعہ سناتے ہوئے کافی افسردہ بھی ہوئے کہ ان کے ہاتھ کا درخت کی چھال پر لکھے قرآن پاک کے 22پارے اور کچھ دیگر نایاب فن پارے پنجاب کے ایک شخص نے چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے ہتھیا کر برونائی کے سلطان قابو س تک پہنچا کربڑا فائدہ حاصل کرلیا لیکن مجھے آخردم تک ٹرخاتے رہے کہ وہ فن پارے ان سے ضائع ہوگئے ہیں،اسی طرح بعض لوگ کسی کو دکھانے کے بہانے فن پارے لے گئے اور پھر ان کا کچھ پتہ نہیں چلا،اسی طرح کچھ این جی اوز نے بھی کام دیکھ کر فن خطاطی کا سکول کھولنے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کرکے اچھے خاصے فن پارے ہتھیالئے لیکن عملی کام کسی جانب سے بھی نہیں ہوسکا، داد رسی کے حوالے سے شمس نے بتایا کہ اب تک سوات اور ملک کے اکثر مقامات پر ہونے والے مختلف تقریبات میں بلایا تو جاتا ہوں لیکن فن خطاطی اور فن کیلیگرافی کو جو پذیرائی ملنی چاہئے اس کا قدردان ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔اہم شخصیات سے برائے نام سرٹیفکیٹ اور تعریفی اسناد تو بہت سارے ملے لیکن اس فن کو زندہ رکھنے کے لئے عملی کام کرنے کی حامی اب تک کسی نے نہیں بھری ہے جس کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ یہ خوبصورت فن کہیں میرے ساتھ دفن نہ ہوجائے۔”سوات نیوز“ کے استفسار پر انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر سوات میں کیلیگرافی کا ہنر سکھانے کیلئے باقاعدہ سکول یا ادارہ قائم کیا جائے تو وہ اس میں اسلامی کیلیگرافی سیکھنے والے بچوں کو مفت خدمات دینے کے لئے تیار ہے تاکہ اس فن کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا جاسکے۔
2,462 total views, 2 views today