29 ستمبر 2011 کو کالا خیل کوہاٹ میں اپنے بچوں اور گھروالوں کی خاطر سنگدل پہاڑوں کا سینہ چھیرنے والے کوئلہ کان کے 16 مزدوروں کو نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا تھا۔ بدقسمتی سے تمام مزدوروں کا تعلق ضلع شانگلہ سے تھا
https://www.youtube.com/watch?v=OAnlcG1FGQo
اور اج یعنی 9 اپریل 2021 کو تقریباً دس سال بعد ان مزدوروں کی لاشیں شانگلہ کے عوام کو تحفے میں دے کر ایک مرتبہ پھر یہ احساس دلایا گیا کہ اتنے دور سے یہاں محنت اور مزدوری کیلئے انے والے مزدور اگر مائن کے ناگہانی حادثات سے بچ بھی جائے تو ان کا یہ حال کیا جائیگا جبکہ شانگلہ کے عوام زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا کر زہنی پسماندگی کا ثبوت دیتے رہے،
کوئلہ کان مزدوروں کا اغواء اور پھر اسطرح دس سال بعد ان کے لاشیں ملنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہے ہیں، پچھلے پانچ سالوں سے ہم نیوز میں بس یہی سنتے ائے ہیں کہ فاٹا سمیت تمام پختونخوا میں اب امن نافذ ہوچکا اور دہشت گرد پسپا ہوکر بارڈر پار بھاگ چکے ہیں، جبکہ تمام علاقوں پر اب حکومت کا کنٹرول ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کوہاٹ میں ایسا کونسا پہاڑ ہے جو اب تک ہماری سیکورٹی اداروں کے قبضے میں نہ اسکا جس میں 16 کان کنوں کی لاشیں دن دیہاڑے مل جاتی ہیں اور قاتل کا کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی، یاد دہانی کیلئے بتاتا چلو کہ ان علاقوں میں ابہت سارے چیک پوسٹ ہیں اور ہر چیک پوسٹ پر مزدوروں کی اینٹری ہوتی ہیں۔
شھید ہونے والوں میں دو بھائی بھی شامل ہیں جن کا تعلق یونین کونسل ڈھیرئی (بنڑ) سے ہیں جن کا بوڑھا
باپ ابھی تک اپنے بیٹوں کے واپس انے کیلئے پر امید تھا۔
کتنی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاسی مداری اس واقعے کو لیکر ایسا ردعمل دے رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن ان کے باپ کا کیا جاتا ہے وہ اکر جنازے کے پہلے صف میں کھڑے ہونگے اور تصاویر کھینچ کر فیس بک پر ڈالیں گے اور زہنی طور پر پسماندہ عوام ان تصاویر کو شئیر کرکے خود کو ان سیاسی مداریوں کا احسان مند مانیں گی۔ اور اسی کا ایک سلسلہ اب فیس بک پر شروع بھی ہوچکا ہیں جس میں ہماری عوام ریسکیو آپریشن کی کامیابی پر مختلف سیاسی اور حکومتی ارکان کے شکر گزار ہیں، چلو ٹھیک ہیں ریسکیو اپریشن کیلئے بے شک شکر گزار رہوں لیکن ان لاشوں کا حساب مانگو ، ان کے قاتلوں کا پوچھو ، ان نامعلوم افراد کے خلاف آواز اٹھاؤ جنہوں نے بے گناہ مزدوروں کو اغواء کیا تھا اور بعد میں اسطرح شھید کردیا۔۔۔ ان اداروں سے سوال کرو سے جن کی رٹ محض نیوز چینلز اور اخباروں تک ہی محدود باقی ان کا یہ حال ہے کہ دن دیہاڑے سولہ افراد کی لاشیں برامد ہوتی ہیں جبکہ قاتل کا کوئی ٹھکانہ نہیں معلوم۔۔۔۔۔
بے شک زہنی پسماندگی کا کوئی علاج نہیں۔
1,132 total views, 2 views today
Comments