تحریر طاہر نعیم ملک
معروف برطانوی تاریخ دان مصنف روزمیری وکٹوریہ سکوفیلڈ آکسفورڈ یونیورسٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ھم عصر تھیں دونوں میں گہری دوستی تھی قدر مشترک تاریخ کا مطالعہ تھا.
وکٹوریہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی. وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ طلبہ یونین کی سیاست میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتیں.
محترمہ بے نظیر بھٹو جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کی صدر منتخب ھوئیں تو اپنی ٹرم پوری کرنے کے بعد انہوں نے وکٹوریہ سکوفیلڈ کو طلبہ یونین کا اگلا صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے قائل کیا اور یوں وہ بھی اگلے سال آکسفورڈ یونیورسٹی طلبہ یونین کی صدر منتخب ھوئیں.
آکسفورڈ یونیورسٹی طلبہ یونین کے مرکزی دفتر میں ماضی کے تمام اور موجودہ صدر کی تصاویر آویزاں ھیں.
اور یوں دونوں سہیلیوں کی تصاویر ساتھ ساتھ آویزاں ہیں.
اچھے دن مختصر ھوتے ہیں بینظیر بھٹو جب آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ھوئیں تو عملی زندگی اور پر آشوب سیاسی سفر ان کا منتظر تھا.
ان کے والد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو آمریت کے عفریت نے نہ صرف اپنی لپیٹ میں لیا بلکہ انہیں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے گرفتار کرکے جیل بجھوا دیا.
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان آکر اپنے والد کی جدوجہد میں شریک ھونے کے ساتھ ان پر قائم مقدمات اور ان کی جان کو بچانے کے لئے سرگرم عمل ھوچکی تھیں.
وکٹوریہ سکوفیلڈ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سہیلی ھونے کے ناطے انہیں اکیلا محسوس کرتے ھوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا.
پاکستان آ کر ابھی وہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملی ھی تھیں کہ انہیں نظربند کردیا گیا.
وکٹوریہ نے نظربندی کے آرڈر کو عدالت میں چیلنج کردیا عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ بھی کیا لیکن اس وقت کے وفاقی سیکرٹری داخلہ روئداد خان جو آج قوم کو تبدیلی اور اصلاحات کا درس دیتے ہیں انہوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا.
اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک وکٹوریہ نظر بند رھیں انہیں پاکستان میں ناپسندیدہ عناصر میں شکار کیا گیا.
وکٹوریہ کو ان دنوں پاکستان میں جاری آمریت جبر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.
وہ روزانہ ڈائری میں اھم واقعات قلمبند کرتی تھیں.
گزشتہ چند سالوں میں وہ کئی دفعہ پاکستان تشریف لائیں مختلف کانفرنسوں اور کتب میلوں میں شرکت کی.
کشمیر پر ان کی کتاب کی عالمی سطح پر پذیرائی ھوئی.
محترمہ بینظیر بھٹو سے ان کی رفاقت آخری دم تک جاری رھی.
چند سال قبل جب وہ ایک کانفرنس کے سلسلہ میں اسلام آباد آئیں تو ان سے دو تین روز مسلسل ملاقات رھی.
میرا ان سے تعارف لندن میں مقیم ھمارے دوست اور لندن یونیورسٹی کے پروفیسر نادر چیمہ نے کروایا.
ایک روز دوران ملاقات انہوں نے بتایا کہ تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر ان کی زندگی اور اپنی قیمتی یادوں پر کتاب لکھ رھی ھوں.
کون کہتا ھے کہ دوستی نبھانا اور وفا کرنا صرف مشرقی روایت ھے اور مغربی کلچر میں یہ ناپید ھوچکی ھے .
ھوٹل کے کمرے میں انہوں نے مجھ ناچیز کی خواہش پر کتاب کا ایک باب بھی سنایا.
وکٹوریہ کا کہنا تھا کہ میرا محترمہ بے نظیر بھٹو سے وعدہ تھا کہ میں ان پر کتاب لکھوں گی.
ان کی لیاقت باغ میں شہادت کے بعد میرے لئے اس وعدے کو ایفا کرنے کا دباؤ بڑھتا چلا گیا اور آج لندن سے نادر چیمہ نے وکٹوریہ کی محترمہ بے نظیر بھٹو پر تحریر کردہ کتاب کی اشاعت کی نوید سنائی.
طاہر ملک
580 total views, 2 views today