قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
انسان کو جو عقل سے نوازا گیا ہے تو اس کا کمال یہ ہے کہ اگر بندہ اس کو استعمال کیا کرے تو اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ فائدہ کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں ہے۔آبادی کیسے آئے گی اور بربادی کیسی آتی ہے ۔زندگی کے نوے فیصد معاملات یا اس سے بھی زیادہ جو فرد کے متعلق ہیں وہ اسی عام عقل سے سمجھ میں آجاتی ہے ۔اور جو معاملات اجتماعی ہیں اور اس کے جو ذمہ دار ہیں اور ان کو جو ماحول اور وسائل وذرائع مہیا ہیں وہ بھی ان وسائل وذرائع اور اپنے عقل کو استعمال کرکے بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اجتماعی فائدہ کہاں ہے اور اجتماعی نقصان کہاں ہے ،اجتماعی آبادی کیسی ہوسکتی ہے اور اجتماعی تباہی وبربادی کیسے آتی ہے۔
اب اگر فرد اپنے معاملات میں عقل سے کام نہ لے تو اس کو بے وقوف کہتے ہیں اور وہ بھی قصداً بے وقوف۔کہ عقل تو اس کے پاس ہے لیکن وہ اسے استعمال ہی نہیں کرتا اور اگر اجتماعی معاملات کے ذمہ دار اجتماعی معاملات سدھارنے کے لئے عقل سے کام نہ لے اور مہیا وسائل کو استعمال نہ کرے تو اس کو خیانت کہتے ہیں ،بددیانتی کہتے ہیں اور اگر اس قسم کے خیانت اور بددیانتی کا لیول بہت بڑا ہے تو اس کو پھر غدر کہتے ہیں کہ بندہ غدار ہے۔سو اول الذکر کا معاملہ کم عقلی کا ہے اور کم عقلی کا معنی ہے کہ اس کے عقل کا اپروچ نہیں ہورہا اس لئے کہ وہ اسے استعمال ہی کم کرتا ہے اور یہ تو استعمال سے پالش ہوتا ہے لیکن ثانی الذکر کا مسئلہ پرسنل سپیسفکPersonal specificہے کہ وہ سب کچھ اپنی ذات کے ارداگرد گھماتا رہتا ہے یعنی وہ سوسائٹی سپیسفک ،نیشنل سپیسفک ،کنٹری سپیسفک یا آئیڈیالوجی سپیسفک نہیں۔یعنی اس کی ترجیح نہ معاشرہ ہے نہ قوم ہے نہ ریاست ہے اور نہ ہی نظریہ ہےتو پھر ایسے بندے یا بندوں سے سوائے خیانت اور غدر کے اور کیا نکل آئے گا۔ یعنی اس بندے یا بندوں نے اپنے کو وسعت نہیں دی بلکہ اپنے کو سکیڑا ہے اور سکیڑ ہی رہے ہیں۔یعنی قابل وسعت حیثیت کو صرف منجمد نہیں بلکہ ریورس پر لے جارہے ہیں ۔یہ موت ہے ،خودکشی ہے جو لوگ کررہے ہیں ۔لیکن کیا کیا جائے جبلت اور خصوصاً سفلی جبلت سے مجبور ہے ۔حب جاہ اور حب مال ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے جس سے خلاصی صرف عقل کے صحیح استعمال پر ممکن ہے۔لیکن ہم نے قسم اٹھائی ہے کہ عقل کو اجتماعیت اور نظریات کے لئے نہیں انفرادیت اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔
اب مدت ہوئی کہ نظریات سے چھٹکارا حاصل کیا گیا ہے اسے صرف ایک شوپیس کے طور پر دکھایا اور بتایا جاتا ہے یا پھر کارکنوں کے جذبات ابھارنے اور کیش کرنے کے لئے بطور ٹول کے استعمال کیا جاتا ہے ۔یعنی ایک لیوریج Leverageہے ۔پھر بھی کچھ لوگ تھے جو کم از کم معاشرہ،ریاست اور قوم کو لیے اسے آگے جاتے رہے ۔لیکن اب کے تو حالات ایسے ہورہے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں بھی اجتماعیت کے ذمہ دار لوگوں کی نظرمیں اہمیت کھورہی ہیں بلکہ کھوچکی ہیں۔اور وجہ یہ ہے کہ انسان ذات کے خول میں بند ہوجائیں ،ذات اور ذات کے مفادات کے اسیر ہوجائیں تو ان باقی امور کے حوالے سے وہ مکمل اندھے ہوجاتے ہیں کہ ان کی بصارت اور بصیرت دونوں ختم ہوجاتے ہیں اور بصارت کا اندھا پن شخصیت کو ناقص نہیں کرتی لیکن بصیرت کا فقدان تو شخصیت اور انسانیت کا خاتمہ کردیتا ہے اور پھر ایسے لوگ وہ کچھ ہانکتے رہتے ہیں کہ اللہ کی پناہ!
اس قسم کے لوگ جو ذات کے خول میں بند اور ذاتی مفادات کے اسیر لوگ جو اجتماعیات کی نگرانی کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ان کو ہائر کرنا ان کو ایجنٹ بنانا بہت ہی آسان ہوتا ہے اس لئے کہ ان کی بیماری کا بھی پتہ ہوتا ہے اور چاہت کی بھی کہ ان کو مال جمع کرنے کی بیماری اور چاہت ہے۔
انسان اور اس کے عقل کا سب سے بڑا قاتل اس کی خواہشات ہیں۔یہ نہ انسانیت چھوڑتی ہیں اور نہ انسانی عقل کو کسی مثبت کام کا اہل رہ کے چھوڑتی ہیں۔اصل میں انسان یہ سب کچھ غلبے کی جبلت کی وجہ سے کرتی ہے کس کو یہ سمجھ آجاتی ہے کہ دولت بہت زیادہ ہو تو بندہ غالب ہوجاتا ہے کوئی سمجھتا ہے کہ قوت حاصل ہو تو بندہ غالب آجاتا ہے اور جو غالب آئے وہی صحیح بھی ہے جبکہ یہ سارے تصورات حماقت اور سفاہت ہیں اس لئے کہ غالب ہونے اور غالب آنے کی تمنا کوئی اچھی تمنا نہیں۔انسان تو کسی فکر کے غلبے کے لئے جدوجہد کرے اور فکر بھی وہی جو صالح ہو ،صحیح ہو۔اور صلاح وصحت کا معیار قرآن وسنت ہے نہ کہ فلاں اور فلاں یا فلاں اور فلاں کی فکر۔قرآن کریم نے
وانتم الاعلون ان کنتم مومنین
فرمایا کہ تم لوگ ہی غالب ہو اگر تم مومن ہوں۔
یعنی مومن ہونا خود میں غلبہ ہے چاہے ظاہراً غلبہ نظر نہ آرہا ہو۔کیونکہ
الاعتبار للخواتیم
کے مصداق بالعاقبت غلبہ تو ایمان اور اہل ایمان ہی کا ہوگاکہ اہل ایمان ایک اکائی ہیں۔ افراد یا گروہ اس پراسیس میں مغلوب بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس اکائی نے بالعاقبت غالب ہی آنا ہے۔
سو صحیح مؤقف اور صحیح فکر کو غلبہ دلانے کی جدوجہد قابل تعریف ہے کہ وہ درحقیقت مغلوب ہونے والوں کے خیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے جبکہ ان کو اس کا پہلے سے احساس وادراک نہیں ہوتا بعد میں جب وہ بظاہر مغلوب ہوجائیں تو پھر ان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ
عسی ان تکرہو شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا
اور
عسی ان تکرہو شیئا وہو خیر لکم
بسا اوقات تم لوگ کسی چیز کو ناپسند کروگے اور اللہ اس میں خیر کثیر پیدا کرے گا اور بسا اوقات تم لوگ کسی چیز کو برا سمجھوگے جبکہ وہ تمہارے لئے خیر ہی ہوگا۔
اور مؤقف اور فکر صحیح نہ ہو تو گوکہ ظاہر میں تو بات فکر کی جاتی ہے لیکن اصل میں وہ فرد کے غلبے کی جبلت یا گروہ کے غلبے کی جبلت ہی ہوا کرتی ہے یعنی وہ غالب آنا چاہتے ہیں۔اور آج تک دنیائے انسانیت کو جو تاخت وتاراج کیا ہے اسی جبلت نے کیا ہے یہی جبلت ہے جو کسی بندے کو دوسرے فرد یا افراد یا گروہوں کو تباہ کرنے پر اکساتی ہے یا کسی گروہ اور قوم کو بھی مختلف طریقوں سےاسی تباہی پر اکساتی ہے۔تبھی تو انسانوں کی جماعات یا ریاستوں کے لئے دستور یا آئین کا تصور دیا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی اپنے حدود میں رہے دوسروں پر نہ تو غالب آنے کی سعی کرے اور نہ ہی اوروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی نامشکور سعی کرے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ جبلت ایسی بے لگام ہے کہ یہ برانگیختہ ہو تو پھر کون دستور اور آئین کو دیکھے ۔پھر تو اوپر نیچے دونوں سوراخوں سے ‘‘میں’’کی آوازیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں حتی کہ ایسے بندوں کو خواب بھی ‘‘میں ’’والے نظرآتے ہیں کیونکہ وہ نفس کا تقاضا ہوتا ہے اور نفس کا مزاج ہے خود کو مطمئن کرنا ۔لہذاوہ اگر جاگتے میں نہ ہوسکتا ہو تو سوتے میں ایک نقشہ کھینچ لیتا ہے تاکہ اسے سکون آجائے ورنہ وہ تو پاگل ہوجاتا ہے۔اور جب دستور اور آئین کو فالونہیں کیا جاتا تو پھر خرابی اور فساد پیدا ہوجاتا ہے۔
تھرڈورلڈمیں بہت کم ہی آئین کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن ریاست کا باقی رہنا بھی تو لازم ہے لہذا اس کے لئے پھر قوت والے ہی بہ کار آتے ہیں اگر چہ عام حالات میں یہ کوئی ممدوح تصور نہیں لیکن کیا کیا جائے یا تو صرف آئین آئین کا رٹ لگانا ہے یا پھر ریاست کو باقی اور سالم رکھنا ہے۔پاکستان میں آئین پر کبھی کما حقہ عمل نہ ہوسکا اور اس کے لئے کسی ایک گروہ کو ذمہ دار نہیں بتایا جاسکتا۔جس کا بس چلا اس نے روندنے کی کوشش کی کیونکہ ہر گروہ غلبہ مطلق چاہتا ہے اور ہر فرد بھی یہی چاہتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس قسم کے لوگ افراد ہوں کہ گروہ خدا بننا چاہتے ہیں ۔ایسے لوگ دین اور خدا کے مقابلے میں تو عقل اور سائنس کی غلامی کا دم بھرتے ہیں لیکن ذاتی مفادات ،انانیت اور حصول قدرت کی بات ہو تو پھر عقل کی جگہ نفس امارہ کے ارداگرد طواف کوئے سلامت کرتے رہتے ہیں۔ایسے لوگ رہبر وراہنما بھی بنیں تو بات تو بہت ہی زراندودہ کرتے ہیں یعنی آزادی،مساوات اور انسانی حقوق کی جو کانوں اچھی لگتی ہیں لیکن اصل میں ان کی آزادی ،مساوات اور حقوق نفسانی خواہشات کے ارداگرد گھومتی ہیں جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے ۔اس قسم کی جمہوریت میں ریاست شہریوں کے خواہشات نفسانی پوراہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے اور بدلے میں شہریوں سے وفاداری اور تائید چاہتی ہے۔ اس قسم کے جمہوری نظام میں عقل ،بدنی قوی اور مادی وسائل سارے کے سارے سرمایہ کی بڑھوتری کے ٹولز ہوتے ہیں اور یوں سرمایہ دارانہ تحکم وتسلط قائم ومسلط رہتا ہے ۔یہ نظام سرمایہ دارانہ تحکم کا اور سرمایہ دارانہ تحکم اس نظام کا محافظ ومؤید ہواکرتے ہیں ۔
اس قسم کا یہ نظام یا یہ تحکم کیا ہے؟
نفس پرستی ہے جس میں انفرادیت ،خودغرضی اور حرص وہوس ہی پروان چڑھتے بھی رہتے ہیں اور معاشرت پر ان بیماریوں کا تسلط بھی ہوجاتا ہے اور ان بیماریوں سے کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں رہتا۔
اور پھر مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہی مقاصد کے لئے مقدس مصطلحات کا بھی استحصال کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہ استحصال دیگر سارے انواع استحصال سے بدتر استحصال ہے کہ یہ اللہ ،رسول اور آیات الٰہی کے ساتھ استہزاء ہے
قل اباللہ ورسولہ وآیاتہ کنتم تستہزءون
مصطلحات کیسے بنتے ہیں؟
اس کے بنتے بنتے مدت گزرتی ہے تو عرفی مصطلح وجود میں آجاتا ہے یا پھر کسی فن کے ماہرین مدتوں سوچ کر ایک متفقہ اصطلاح وجود میں آجاتا ہے اور جیسے ہی وہ لفظ واصطلاح بولا جائے تو سننے والوں کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کا معنی ومقصد اور مصداق کیا ہے ۔کیونکہ کسی بھی فن کا مصطلح اگر فن کے ماہرین کی سمجھ میں نہ آئے تو یا تو وہ اس فن کے ماہرین نہیں یا پھریہ مصطلح ابھی تک پیٹنٹ بنا ہی نہیں۔
لیکن ایک ہیں شرعی اصطلاحات تو وہ یا تو منصوص ہیں یا پھر اہل الشرع نے وضع کیے ہیں اور چونکہ شریعت میں تو عرفی مصطلحات کو عرفی تقدس حاصل ہے اور کسی فن کی اصطلاحات کو فنی تقدیس حاصل ہے لیکن شرعی مصطلحات کو شرعی تقدس حاصل ہے ۔تو ویسے تو مصطلحات کا استعمال ایک محتاط عمل ہے لیکن شرعی مصطلحات کا استعمال تو بہت ہی محتاط عمل ہے کہ اس کا تعلق ایمان،اسلام اور عقیدے سے ہوتا ہے ۔اس کا استعمال اگر غلط کیا گیا دیدہ دانستہ یا ایسا استعمال جس سے ان اصطلاحات کی توہین ہوتی ہو تو پھر تو ایمان کا خطرہ ہے اللہ تعالیٰ بچائے رکھے آمین۔
لیکن کیا کیا جائے جب مقصد ہی مال یا جاہ کا حصول ٹھہرے۔تو ایسے میں تو معاذاللہ خدا کا سودا کیا جاتا ہے ،رسول کا سودا کیا جاتا ہے ،دین اور ایمان کا سودا کیا جاتا ہے اور یہ کام دنیا کا سب سے ذلیل ترین کام ہے۔البتہ اس کا بدترین نتیجہ یہ ہے کہ پھر وہ اہل اللہ اور مخلصین جو ان مصطلحات کو اپنے صحیح معنوں ،صحیح جگہوں ،صحیح اوقات اور صحیح مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ان پر بھی یا تو اعتبار نہیں کیا جاتا یا کم از کم ان کو بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے ۔یعنی خاکم بدہن یوں ان مصطلحات کی اہمیت کم یا دھندلی ہوجاتی ہے۔تو کیا ہم نے اپنے محدود سفلی مقاصد کے حصول کے لئے مقدسات کی توہین کی قسم اٹھائی ہے ۔یوں تو دنیا وآخرت دونوں کی تباہی اور رسوائی مقدر ہوگی
خسر الدنیا والآخرۃ ذلک ہو الخسران المبین
اب پہلے تو یہ تھا کہ بزنس کا نام، کسی ادارے جیسے ہسپتال یا سکول کا نام کسی مقدس مصطلح پر رکھا جاتا تھا یا کسی مقدس شخصیت کے نام پر مثلاً مدینہ جنرل سٹور ،مکہ کریانہ سٹور ،اقراء پبلک سکول ،المدینہ ہسپتال وغیرہ وغیرہ(یاد رہے میرا مقصد اس نام پر کسی خاص سٹور یا ادارہ نہیں اگر اس نام کا ہے بلکہ میں ایک تصور کا ذکر کررہا ہوں)سو أساساً تو نام رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کہ یہ نیک نیتی سے بھی رکھے جاتے ہیں ،تبرک کے طور پر بھی رکھے جاتے ہیں اور پھر سکول وہسپتال تو أساساً ہوتے ہی ہیں خیرکے لئے۔اب جس چیز کی شناخت خیر کی ہو اور پھر اس کو مزید جاذب بنانے کے لئے مقدس نام بھی رکھا جائے اور بعد ازاں اس کو استحصال واستغلال کا ذریعہ بنایا جائے تو بندہ خود تنہائی میں بیٹھ کر خدا کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کرے کہ اس قسم کے فراڈ اور دھوکہ سے کمائے ہوئےپیسے کا کرنا کیا ہے؟
اس پر تو ہم پہلے بہت تفصیل سے لکھ چکے ہیں لیکن آج اس بات کو لینا ہے کہ مختلف حکومات ایک جانب تو مسلّمات دین کے ساتھ وقتاً فوقتاً کھلواڑ کرتے آئے ہیں اور ساتھ ساتھ ضرورت پڑی تو دین کے رسمیات کو بطور شیلڈ بھی استعمال کرتی چلی آئی ہیں۔دور جانا تو چھوڑیے ایوب خان نے عائلی قوانین کا ایک پلندہ نافذ کرنا چاہا تھا جس کے خلاف زبردست تحریک چلی حتی کہ ہم سکول میں تھےاور ان جلسوں میں شامل ہوتے تھے۔سو وہ مسئلہ وہیں رہ گیا ۔اس میں خاتون کو طلاق کاحق ،پوتے کی میراث وغیرہ کے ،تعدد ازواج پر پابندی وغیرہ کے مسائل تھے۔اب اس پر جو نفرت پیدا ہوئی تھی اس کا مداوا کرنے کے لئے پھراس نے رؤیت ہلال کمیٹی بنادی یعنی ایک اسلامی رسم کے اپنانے کا سہارا لیا۔پھر بھٹو صاحب نے مدرسوں کو قومی تحویل میں لینا چاہا وہ تو نہ کرسکے لیکن پھر قادیانیت کے خلاف تحریک اٹھی اور بالعاقبت ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔جنرل ضیاء تو آئے نظام مصطفیٰ کی تحریک کے پس منظر میں تو اس نے تو اسلام اسلام ہی کرنا تھا اور کرتے بھی رہے بلکہ یہ بھی قابل تذکیر ہے کہ نظام مصطفیٰ تحریک کا نام بھی سہارا لینا تھا کہ دھاندلی ہوئی تھی اور مغربی قوتیں بھٹو کو ایٹم بم اور قادیانیت کے حوالے سے سزا دیاھ چاہتے تھے تو وہاں سے تحریک کو سپورٹ ملتی رہی ۔میں نہیں کہتا کہ مالی سپورٹ لیکن وہاں کی میڈیا اور سیاسی قوتیں بھٹوحکومت کے خلاف باقاعدہ طور پر بولتی رہیں۔اور یہاں پر بھی تحریک والوں کو بات سوجھی کہ پاکستان جیسے ماحول میں دین کا نام لینے کے بغیر بزنس نہیں چلتا سو انہوں نے اس کو نظام مصطفیٰ کا نام دیا۔پھر ضیاء الحق اپنی حکومت کو عملاً نہ نافذ ہونے والے حدود آرڈیننس اور ساتھ ساتھ شریعت بل کے جمپرزJumpersلگا کے رکھاتھا۔سو یہ ساری چیزیں لیوریج ہیں اپنے کو سپورٹ دینے کے لئے اور سب یہ کرتے رہتے ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ یہ ساری حکومتیں اپنی کمزوریوں ،اپنے بچ بچاؤ یا اپنی خبث باطن کی وجہ سے فیصلہ شدہ امور میں بھی چوری چھپے ڈنڈی مارتے رہتے ہیں ۔مسلم لیگ کی حکومت نے ختم نبوت کے حوالے سے ایسا کیا تھا ،تحریک انصاف والوں نے بھی ایسا کیا ،پی پی والے چونکہ یہ ڈر رکھتے ہیں کہ ہمارا تو رنگ دینی نہیں نہ دین کا زیادہ نام لیتے ہیں لہذا وہ ذرا محتاط رہتے ہیں ورنہ وہ بھی توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے کئی بار کوشش کرچکے ہیں۔
اب یہ حکومت ایک جانب تو ‘‘ایاک نعبد وایاک نستعین’’کا موٹو اپنائے ہوئے ہیں اور ریاست مدینہ مدینہ کا ورد کرتے رہتے ہیں کہ خاتم النبیین لکھنا ہے یا اب کے رحمۃ للعالمین اتھارٹی بنائی ہے۔ارے بھائی خاتم النبیین ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپﷺ کا لایا ہوا نظام دائمی ابدی ہے تو کیا ہم وہ نافذ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رحمۃ للعالمین اتھارٹی نہیں بنانی رحمۃ للعالمین کو اتھارٹی دینی ہے ۔ریاست مدینہ عدل کا نام ہے اور عدل کوئی گولی تو نہیں کہ کسی کو کھلائی جائے بلکہ یہ تو نتیجہ ہے مدینہ والے نظام کے نفاذ کا۔تو رسمیات اور اسمیات سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا ہوگا۔کیا رسول پاکﷺ کی ذات کا تقاضا صرف یہ ہے کہ آپ ﷺ کا صرف ادب احترام کیا جائے اور آپﷺ کے دین اور شریعت کا خون کیا جائے ۔اصل ادب کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کے لائے ہوئے نظام کا نفاذ کیا جائےورنہ
؎ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی
ویسے تو ہم بچوں کے نام بھی بہت دینی رکھتے ہیں جس کا اصل مقصد تو اس کی معنویت کو دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا ہم کچھ تھوڑا بہت بھی اس نام کے مصداق بن سکے ہیں مثلاً میرا نام فضل اللہ ہے تو کیا تھوڑا بہت بھی میں خلق خدا کے لئے فضل بن سکا ہوں یا میرے رفیق خاص کا نام ہے عباداللہ تو کیا وہ بندہ خدا ہونے کا مظاہرہ بھی کررہا ہے ۔اگر ایسا نہیں تو پھر تو ہمیں اپنے نام ہی پر شرمندہ ہونا چاہئے ۔نام سے تو برکت نہیں آتی بلکہ ایسے میں تو یہ ذات اس نام کے لئے شرم اور عار ہے
؎ برعکس نہد نام زنگی کافور
سو ہر بندے کو اپنے نام کا سوچنا ہے کہ اس کا معنی کیا ہے یا یہ تاریخ میں کس عظیم شخصیت کا نام تھا۔
ہم دین میں سیلیکڈ ہیں۔یعنی اپنی مرضی اور فائدے کی چیزیں اس کے اٹھالیتے ہیں جس چیز کا ہمیں فائدہ نہیں ہوتا اس کو اگنور کرجاتے ہیں یوں تو رحمۃ للعالمین اتھارٹی نہیں بنے گی ہم آپﷺ پر معاذاللہ اتھارٹی بنے ہیں کہ ہم پک اینڈ چوز کریں گے کہ آپﷺ کی جو بات ہمیں راس آئے وہ لے لیں گے اور جو ایسی نہیں اسے چھوڑ دیں گے۔اگر کوئی ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرے گا ہم خود کیا سوچیں گے۔ہمارا تو مذہبی طبقہ بھی دین میں سیلیکٹڈہوتا ہے وہ بھی دین کا وہ حصہ بیان کرتے ہیں جس سے ان کا دانہ پانی چلتا ہے ۔
افتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض فما جزاء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیوۃ الدنیا ویوم القیمۃ یردون الی اشد العذاب وما اللہ بغافل عما تعملون
تو کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھوگے اور بعض پر کافر ہوگے سو نہیں بدلہ اس کا جو ایسا کرتا ہے مگر رسوائی اس دنیوی زندگی میں اور قیامت کے دن ان کو لوٹایا جائے گا شدید ترین عذاب میں اور نہیں اللہ بے خبر اس سے جو تم کرتے ہو۔
582 total views, 2 views today