زاہدراجپوت
مقامی آبادی۔ قدرتی مناظر کے بعد جو سب سے خوبصورت چیز اللہ نے پاکستان کو عطا فرمائی ہے وہ ہماری مقامی آبادی کے وسیع دل ہیں اور اس بات کا ادراک مجھے تب ہوا جب میری یونیورسٹی آف رانس۔فرانس کی پروفسر مسز کرسٹو سے بحث ہو رہی تھی کہ ہم پاکستانی بحیثیت قوم مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ لیکن پروفیسر کے تجزیہ کا زاویہ میرے لیے نیا تھا لیکن قابل فخر کہ پاکستانی قوم کا مسئلہ لسانی اور مسلکی نہیں بلکہ آپ کا مسئلہ معاشی ناہمواری اور عدم تحفظ (ناانصافی) ہے۔ دنیا میں کمرشل علاقوں کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے پاکستان میں زیادہ تکلیف دہ ہو۔ لیکن قوموں کی پہچان ان کا نان کمرشل علاقے ہوتے ہیں۔ اور غیرکاروباری علاقوں کے رہنے والوں کا ثانی پوری دنیا میں کوئی نہیں۔
پوری دنیا میں نان کمرشل علاقے میں بھی کوئی آپ کو منرل پانی کا گلاس بھی بنا مفاد کے پیش نہیں کرے گا بھلے مہمان کتنا قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ پاکستان کے کسی دوردراز علاقے میں چلے جائیں تو مقامی آپ سے آپ کا مذہب ، مسلک یا زبان نہیں پوچھتے بلکہ خدمت کے معیار کا تعین آپ کے علاقے کی دوری سے کرتے ہیں۔جتنا دور کا، اتنا ہی معزز مہمان۔
لیکن ایک بات یاد رکھیں مقامی سیاح کو مہمان کا درجہ تب تک دے گا جب تک آپ اس کی ثقافت یا ذاتی زندگی (پرسنل لائف سٹائل) کو نشانہ نہیں بناتے۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشرے سے ایک ہجوم ہے جو سیاحوں کے بھیس میں جا رہاہے اور ا س ہجوم سے سب سے زیادہ متاثر مقامی لوگ ہو رہے ہیں۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم شمال میں جا کر مقامی لوگوں پر احسان عظیم کر رہے ہیں ان کے بچوں کو ہم پیسے دے کر سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ زرخرید ہیں اور جب مقامی مزاحمت کرتے ہیں تو ہم ان کی پچھلی نسلوں کو بھی برا کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ وہی سیاح صاحب اپنے محلے کی گلی میں سے گذرنے کا حق کسی کو دینے کو تیار نہیں۔ یاد رکھئے شمال کی وہی جنریشن مزاحمتی ہے جو ہمارے سکولوں کالجوں میں پڑھ کر گئی ہے۔ جو ہم اپنے شہر محلے میں کرتے ہیں۔ یہ سبق بھی انہوں نے ہم سے ہی سیکھے ہیں۔
احتیاط کیجئیے وہ بھی آپ کی طرح معزز۔عزت والے اور دل کے امیر ہیں۔ وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے ماسوائے عالمی اصول “عزت دیجئے اور عزت لیجئیے”۔ باقی جہاں تک شمال کے مقامی کمرشل لوگ ہیں تو ان کی جب سے کاروباری شراکت جنوب کے کمرشل لوگوں سے ہوی ہے تو دونوں کا ایک ہی ٹارگٹ ہے پیسہ کمانا ہے بنا کسی اصول کے۔ لیکن اس چیز کو بڑی آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے پالیسی ساز ادارے کچھ اصول و ضوابط بنا کر عمل کروائیں گے۔ ہمارے کمرشل طبقہ میں اکثریت اچھے لوگوں کی ہے۔ سید اسرار شاہ، احمد شگری، اور بالخصوص زاہد راجپوت جیسے ہزاروں مٹی کے بیٹے اس کی خدمت کو ہماوقت تیار رہتے ہیں۔
میں چند سال پہلے فیملی کے ساتھ جہاز بانڈہ کا ٹریک کبھی نہیں بھولوں گا جب مجھے واپسی کا ٹریک ہوٹل والے کی وجہ سے مغرب کے بعد شروع کرنا پڑا۔ اور جندرای ہم رات ایک بجے فیملی کے ساتھ پیدل پہنچے۔ لیکن کیا میں اس ایک بندے کی وجہ سے پورے کمراٹ کو براکہوں؟ نہی اور کبھی نہی، میں نے شمال سے محبتیں سمیٹی ہیں۔ اور اسی کمراٹ کا حصہ ہمارا گائیڈ امان اللہ بھی تھا۔وہ غریب تو تھا لیکن اس کے بادشاہ دل کی گواہی ڈاکٹر شاہد اقبال اورخالد حسین بھائی بھی دیں گے۔
اور دوسری طرف جب کاروباری طبقہ جب غلط کام کرتا ہے تو وہ مقامی آبادی کے پردے کے پیچھے چھپنا شروع کردیتا ہے۔ اور سیاح بھی دل کھول کر پورے شمال کو تختہ مشق بنا دیتا ہے۔ اگر ہم محبتوں کے یہ رشتے قائم رکھنا چاہتے ہیں تو مقامی آبادی اور کمرشل لوگوں کے درمیان فرق کرنا ہو گا۔
1,225 total views, 4 views today