قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
معاشرے میں رواداری ختم ہوتی جارہی ہے اور عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے جو خطرے کی گھنٹی نہیں خطرات کی گھنٹیاں ہیں کہ خطرہ تو ایک ہوتا ہے اور خطرات بے شمار۔اس طرح گھنٹی ایک بار بجتی ہے اور گھنٹیاں تو بجتی رہتی ہیں اور یوں گھنٹیاں بجتی رہیں گی اور خطرات پیدا ہوتے جائیں گے ۔کتنے؟لاتعداد۔یعنی ایک تسلسل ہوگا جو رکے گا نہیں اور یوں معاشرہ درندگی اور درندوں کا معاشرہ ہوجائے گا اور اس میں ہر جگہ اور ہر وقت وحشت ہی ہوگی اور یوں ذہنیتیں وحشت ناک ہوجائیں گی اور وحشت انس والفت کی ضد ہے جو انسان کی صفت ہے کہ اس کا تو نام ہی انس سے لیا گیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟
اس کے ایک سے زیادہ وجوہات ہیں جن میں کچھ شخصی ہوتی ہیں ،کچھ معاشرتی ہوتی ہیں ،کچھ معاشی ہیں جبکہ کچھ سیاسی وجوہات ہیں۔
۱۔شخصی وجوہات:
شخصی وجوہات میں ایک ہے
۱۔جہالت اور کم علمی۔
۲۔دوسری وجہ ہے ضد عناد اور اناڑی پن ۔
۳۔اور تیسری وجہ ہے استکبار واستعظام۔
۱۔جہالت اور کم علمی:
جہالت اور کم علمی میں تو دلیل اور برہان سے بات کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ رد ہوگا ،توہین ہوگی اور ذاتی اور شخصی حملے ہونگے ۔
۲۔ضد اور عناد:
ضداور عناد تو ہے ہی لاتعلقی کا ذریعہ کہ اس بندے نے کسی کا سننا نہیں مانے گا کیا اور جب نہ سننا ہو نہ ماننا ہو تو سماجی رویہ وحشت ناک ہوجاتا ہے۔
۳۔استکبار واستعظام:
اور تیسری وجہ استکبار واستعظام یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اور اپنی عظمت کا گمان ہونا۔
۲۔معاشرتی وجوہات:
معاشرتی وجوہات یہ ہیں کہ انسانوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انس میں کمی آرہی ہے اور انس ہی ان کی خمیر ہے ۔یہ خمیر رہے تو ضمیر زندہ ہوتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔انس الفت پیدا کرتا ہے اور الفت خدمت ،تعاون اور تکافل ابھارتا ہے ۔ہر انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کا مداواکرنا چاہتا ہے اور کرتا ہے لیکن انس نہ ہو تو انفرادیت آجاتی ہے ۔ہر بندہ تنہائی پسند ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کو دیگران سے وحشت ہوتی ہے اور آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں تو یہ بیماری بڑھتی ہی جارہی ہے اس لئے کہ ہر بندہ یا تو ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہے یا پھر ٹیلی فون ہاتھ میں ہے۔دنیاجہاں کے نیک وبد کو دیکھتا ہے اور یوں وہ کسی کے ساتھ گھلتا ملتا نہیں ۔کسی زمانے میں تو راستے پر چلتے ہوئے، بس میں بیٹھے ہوئے، ٹرین میں سفر کرتے ہوئے آپس میں بات چیت ہوتی ،کچھ ایک دوسرے سے سنتے ،سیکھتے اور آپس میں دوستی ہوجاتی ۔اب و وہاں بھی ہر بندہ کمپیوٹر پر لگا ہے یا ٹیلی فون دیکھ رہا ہے ۔یعنی کسی سے معاشرت نہیں اور یوں ہر بندہ نفسا نفسی کی کیفیت میں ہے اور پھر سوشل میڈیا جو ایک گٹر کی شکل اختیار کرچکا ہے اس میں دنیا جہاں کی غلاظتیں جو دیھیا اور سنی جارہی ہیں اس نے تو ان کااور بھی بیڑا غرق کردیا ہے ۔اور جتنا جتنا ایک معاشرہ بزعم خویش زیادہ ترقی یافتہ اور جدید ہورہا ہے اتنا اتنا ہی وہ وحشت اور انفرادیت کا شکار ہورہا ہے ۔شہروں میں تو کسی کو اپنے پڑوسی کا نام تک نہیں آتا کہ میل ملاپ نہیں ۔شادی غمی میں مل بیٹھنا تو بڑی بات ہے گزرتے ہوئے اگر شامیانہ لگا نظر آئے اور ساتھ خوانچے اور لوگوں کے نئے تازے کپڑے یا بچوں کچھ رنگینیاں نظر آئے تو پتہ لگے کہ اس گھر میں کچھ خوشی ہے اور اگر شامیانہ لگاہے اور لوگ افسردہ بیٹھے ہیں تو پھر فوتگی ہوئی ہے اور یہ گزرنے والا گزر جاتا ہے ۔یہ بھی کوئی معاشرت ہے ۔جبکہ انسان کا مابہ الامتیاز فلاسفہ کے ہاں ہے ہی یہی کہ وہ ایک معاشرتی حیوان ہے ۔اب معاشرت نہیں رہی تو کیا رہا ؟حیوانیت۔انا للہ وانا الیہ رجعون۔
معاشی وجوہات:
تیسری وجہ جومعاشی ہے وہ بھی اس وجہ سے کہ انسانوں میں انفرادیت پسندی آگئی حالانکہ ان کا تو امتیاز ہی اجتماعیت ہے ۔یعنی اوروں کو ساتھ لے کر چلنا ۔انفرادیت تو بندے کو خودغرضی ،لالچی اور مکار بنا دیتا ہے جو جتنا مکار اور فریب کار ہو وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے دولت جمع کرتا رہے گا اس کو یہ احساس تک نہیں ہوگا کہ اس طرح کرکے میں انسان نہیں انسانیت پرظلم کررہا ہوں ۔اس کو تو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ قریب ایک بندہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہا ہے میرے بس میں ہے کہ اس کا مداوا کروں لیکن کیوں کرے گا اس لئے کہ وہ وحشت کا شکار ہے اور اسی وحشت نے اس کو ایک خوف میں مبتلا کررکھا ہے کہ کہیں یہ مال ہاتھ سے نہ چلا جائے ۔لہذا جو حاصل کیا ہے اس کو بچانے کے لئے اور بھی ہاتھ پاؤں ماررہا ہے لہذا نہ تو اس کو اس دوسرے کا احساس ہے اور نہ فرصت ہے۔
۴۔سیاسی وجوہات:
چوتھی وجہ سیاسی ہے اور یہ ایک جانب تو ہے سیاست کا کھیل کھیلنے والوں کے باہمی رقابت کا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو بچھاڑنا ہے لہذا مخالف کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر چور اچکا ،بدمعاش ،حرام خور اور ولن ثابت کرنا ہے اس کے لئے جو بھی کرنا پڑے کرے اس کے کسی خوبی کا تذکرہ تو درکنار اس کو یا تو چھپایا جائے یا اس کی بھی ایسی تاویل کرے کہ وہ خوبی بھی اس بندے کا دوسرے کی نظر میں مکر وفریب ظاہر ہو یعنی اس کو سر تا پا شر ثابت کیا جائے ۔اس سے منسوب اگر خیر کی کوئی نشانی ہو تو اس کو مٹایا جائے۔
لیڈران اور کارکنان:
دوسرے سیاست میں لیڈران اور کارکنان ہیں۔اب ظاہر بات ہے زیادہ عیاری تو لیدڑان نے کرنی ہے ۔اپنے پیروکاروں کو سبز باغ دکھانا ،ان کے جذبات ابھارنا اور ابھارے ہوئے جذبات کو کیش کرنا جو حد درجہ عیاری ہے اور جب کیش ہو تو ان کو منہ بھی لگانا بلکہ اپنے تعیشات میں لگ جانا یا مال بنانے اور بڑھانے میں لگ جانا ۔پھر بھی کارکنان اپنے لیڈرز کے عشق میں ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ ہر ایک کو دوسرے کے لیڈر میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور اپنے لیڈر میں کوئی کمی اور کوتاہی نہیں نظر آتی ۔یعنی وہ اپنے لیڈر کو مقدس سمجھتا ہے ۔ایک دوسرے کی بھی مٹی پلید کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیڈر کی بھی عزتوں پر حملہ ،گالم گلوچ حتی کہ مارکٹائی اور خون خرابہ یعنی پھر ایک بار وحشت اور عدم برداشت۔
رسول پاکﷺ صحابہ کرامؓ کے ساتھ دیوار کے سائے میں کھڑے تھے ایک خاتون آئی جو اہل مدینہ کو معلوم تھی کہ ذہن ٹھیک کام نہیں کررہا کوئی بات شروع کرتی ہے تو پھر ختم کرنا جانتی ہی نہیں تاآنکہ خود تھک جائے اور چلی جائے اور بات بھی ایسی کہ اس کا کوئی سر اور پیر نہیں ۔رسول پاکﷺ سے کہا یا رسول اللہ!آپﷺ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔لیکن لوگوں کے سامنے نہیں۔آپﷺ کو سایے سے دھوپ میں لے گئی اور بولتی رہی ۔رسول پاکﷺ پسینے سے شرابور ہورہے تھے ۔صحابہ ؓآپ کی تکلیف پر کڑھتے بھی رہے لیکن ادب کی وجہ سے کچھ کہہ بھی نہ سکتے تھے ۔جب وہ خاتون خود چلی گئی اور رسو ل پاکﷺ صحابہ کرامؓ کے پاس واپس آئے تو عرض کیا یا رسول اللہﷺ!یہ عورت تو دیوانی ہے ہم تو اس سے بھا گ جاتے ہیں کہ یہ پھر بات ختم ہی نہیں کرتی اور آپﷺ کو اس نے اتنی تکلیف دی آپ ﷺ چھوڑ کر چلے آتے۔
آپﷺ نے فرمایا مجھے پتہ ہے کہ یہ دیوانی سی ہے کوئی بھی اس کی بات کو نہیں سنتا تو اگر رحمۃ للعالمین بھی اس کو دھتکار ے اور اس کی بات کو نہ سنے تو یہ اپنی بات سنانے کہاں اور کس کے پاس جائے؟
اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید
معاشرے کی مثال ایک جسم سی ہے:
اب معاشرہ میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔معاشرہ ایک جسم ہے اور سارے لوگ اس کے اعضاء ہیں اور اعضاء باہمدگر مربوط ہیں اور مربوط رہنے چاہیئں۔ان میں ہر ایک عضو کا اپنا اپنا کام ہے اور اپنی اپنی صلاحیت ہے ۔اب اگر معاشرہ کا ہر فرد اپنی صلاحیت اپنی قوت اور ذمہ داری کو پہچانے کہ دیگر اعضاء کا میرے اوپر کیا حق ہے تو رواداری آجائے گی ،برداشت آجائے گا اور ہم وحشت سے واپس انس کی طرف چلے جائیں گے ۔لیکن کیا کیا جائے اس جانب تو کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا ۔ایک فلاسفر نے کہا
Social misbehavior harms more than you think
سماجی رویہ تمہاری سوچ سے زیادہ زخمی کردیتا ہے۔
دنیا ایک اکائی ہے:
اب دنیا ایک اکائی ہے اور ساری مخلوق اس کے اجزاء ہیں ۔انسان اور افراد انسان بھی اس کا ایک جز ہے اور اس کے جزء کی خرابی سے کل میں خرابی آتی تو ہے البتہ اس کے کسی حصے میں ڈائریکٹ اور کسی حصے میں ان ڈائریکٹ کسی جگہ زیادہ اور کسی جگہ کم۔البتہ بطور مسلمان ہماری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ اس فساد کو روکیں ۔اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دعوے کرتے کرتے تو ہم تھکتے ہیں کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے اور صرف اسلام ہی دین ہے اور یہ امت سب سے بہترین اور افضل ہے ۔اب اسلام کا پیکر محسوس تو ہم انسان ہی ہیں محسوس طور پر تو مسلمانوں ہی کو اسلام سمجھا جاتا ہے ۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے خود دین کو نہیں سمجھا نہ سمجھنے کی کوشش کی لہذا سمجھے بغیر تو اس کے ساتھ لگاؤ جذباتی رہ جاتا ہے ۔واقعیت اور حقیقت سے زیادہ رسوم اور روایات سے تعلق رہ جاتا ہے یعنی سطحیت جو ابھی تک اندر نہیں گیا جہاں سے وہ بصیرت بن کر پھر نکلے اور لوگوں کے لئے خیر کا ذریعہ بنے جو خالق کی طرف سے خیر کے لئے ہی آیا ہے ۔لیکن کیا ایک مدت سے ہم نے اس کو خیر کا ذریعہ بنایا ہے؟ہم عمل کے لئے تو تیار نہیں معمولی معمولی دنیوی مفاد کے لئے اس دین کے احکام اور قوانین کا خون کرتے رہے ہیں اور دعوی ہے ہمیں حبّ رسول ﷺ کا حبّ اللہ کا اور حبّ دین کا۔یہ محبت کی کون سی قسم ہے ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آرہی۔حب رسول ﷺ کا تقاضا ہےاطاعت واتباع ۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
کہ مسلمان کے صرف اعمال نہیں سارے حرکات اور طبعی افعال بھی رسول پاکﷺ کے طریقے کے مطابق ہو ہم تو آپﷺ کے لائے ہوئے فرائض وواجبات کا حشر کرتے ہیں ۔سنت کی تو بات اور ہے بلکہ خاکم بدہن ہم تو آپﷺ کے بتائے ہوئے عقائد کا بھی وہ حشر کرتے ہیں جو أساسی عقائد ہیں ان میں تاویلات کا بھرمار کرکے اسے متنازعہ بنادیتے ہیں اور جو ثانوی عقائد ہیں جس کے أساس پر قصداً غلط راستہ اپنائے ہوئے کو بھی کافر نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی تحقیق دوسری ہے اور جو کچھ وہ سمجھا ہے اس کو ہی وہ صحیح سمجھتا ہے زیادہ سے زیادہ ہم اس کو بدعتی کہہ سکتے ہیں کہ دین کے تصورات میں تاویل کا سہارا لے کر وہ ایک نیا طریقہ اپنا چکا ہے اگر چہ بدعت کا أساسی تعلق عمل سے ہے لیکن پھر بھی معتزلہ وغیرہ کو مثلاً علماء اہل سنت نے بدعتی کہا ہے یا فرقہ ضالہ کہا ہے ۔لیکن سلف نے ان کو خوارج کو یا شیعہ کو مطلقاً کافر نہیں کہا ۔یہاں میرا مقصد ان فرقوں کے حوالے سے کوئی تغلیط یا تصویب نہیں بلکہ صرف یہ ذکر کرنا ہے کہ ایک ثانوی مسئلے کو لے کر ہم جس طرح تکفیر کا بازار گرم کرچکے ہیں تو اللہ سے ڈرنا چاہئے کہ یہ امت داعی تھی کہ لوگوں کو بوّاح کفر سے ایمان کی طرف لائے یا کہ ان کا کام یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو امور ثانویہ میں غلط فہم یا غلط تاویل جس کو وہ غلط ہی نہیں سمجھتے کے أساس پر کفر میں دھکیلا جائے ۔تو کیا ہم داعی رہے کہ رادّ۔اور پھر خاص کر جب وہ تاویل کرتے ہیں تو مؤول کے کلام پر فتوی لگانا تو علماء امت نے صحیح نیں کہا الا آنکہ وہ تاویل مسلّمات کے خلاف ہو پھر بھی وہ تکفیر نہیں کرتے۔
اب سوشل میڈیا پر ایک بھرمار ہے مناظرات کی۔اور ہم نے خود کو نہیں کہ ہم کیا ہیں بلکہ اس دین کو لوگوں کی نظروں میں خاکم بدہن ایک مسخرہ اور مذاق بنادیا ہے کہ اس دین کے محسوس پیکر تو ہم معلوم ہوتے ہیں کہ دین خود تو ایک معنوی چیز ہے لیکن معنویات کے محسوس پیکر ہواکرتے ہیں اور عامۃ الناس ان پیکران محسوس کو ہی وہ معنوی چیز سمجھتے ہیں اور اس کی طرف نسبت کرتے رہتے ہیں ۔تو ایک وقت تھا کہ ہم اس پر لگے ہوئے تھے مناظرات کرنے کہ مردے سنتے ہیں کہ نہیں سنتے ۔اب اس سے ہم بہت آگے گئے اور اس بات پر مناظرات بلکہ روزمرہ کے بیانات حتی کہ بلاوجہ اور بلا ضرورت ایک خالی کمرے میں مائیک کے سامنے بیٹھ کر کلپ بناتے ہوئے جھاگ نکالتے رہتے ہیں کہ رسول پاکﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں کہ مردہ ہیں ۔انا للہ وانا الیہ رجعون۔اور اکثریت کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کلپ کو مزے لینے کے لئے بہت سارے ویورز اور فالورز دیکھ کے ہمیں کچھ ڈالرز مل جائیں گے ۔یعنی آپﷺ کی عزت وحرمت کو چند ڈالروں کے عوض بھی اڑانا۔اللہم احفظنا یا رب!
توآئیں عز م کریں کہ ہم نے انسان بننا ہے ،انس اپنانا ہے ،برداشت پیدا کرنا ہے نفرت نہیں محبت کو پھیلانا ہے ۔اسلام کا حکم سلام کرنا ایک تو ایک جوڑ پیدا کرتا ہے جس کو آپ نے سلام کیا اس کو عزت ملی اور السلام علیکم کا معنی صرف دعانہیں کہ تم پر سلامتی ہو بلکہ تمہاری جانب سے ایک ضمانت ہے کہ میری طرف سے مطمئن رہو میں نے تمہیں کوئی زک نہیں پہنچانا بلکہ تمہاری سلامتی کا سوچنا ہے اور اگرمسلم معاشرہ میں اس بات کی سمجھ آجائے تو پھر خیر ہی پھیلتا رہے گا۔
اللہم اہدنا واہدنا بنا واجعلنا ہداۃ مہدیین دعاۃ الی سبیلک وحماۃ الدین آمین یا رب العالمین۔
1,168 total views, 2 views today