تحریر :۔ خورشید علی
یہ سال 2022 اور ماہ جولائی کا تھا ۔جب سوات کے پہاڑی اور سرحدی علاقوں میں نامعلوم افراد کی امدورفت کے بارے معلومات انا شروع ہوئی ، یہ وہ نامعلوم افراد تھے جو سال 2009 میں عسکری اپریشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے افغانستان منتقل ہوئے ، اوراس کے بعد تقریبا بارہ سالوں تک سوات میں امن کی فضا برقرار رہی۔
جولائی کے مہینے میں ان نامعلوم افراد کے فون کالز اور وٹس ایپ کے ذریعے لوگوں سے بھتہ وصول ہونے کا انکشاف بھی ہوا ، لیکن عملی طور پر وہ اگست کے پہلے ہفتہ میں سوات اور دیر کے سرحدی علاقوں میں گشت کرنے لگے اور باقاعدہ کہنا شروع کردیا کہ ہمارے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اس معاہدہ کے بعد ہی نامعلوم افراد جو اب معلوم ہوگئے تھے اپنے پوزیشن مستحکم کرنا شروع کردیئے ، بالاسور ، کنالہ اور دیگر پہاڑوں سے اب یہ لالکو ، سخرہ ، چپریال، شور، اور پیوچار میں نظر انے لگے، جن لوگوں کو بھتہ دینے کیلئے کہا گیا کچھ نے تومبینہ طورپر بھتہ دیدیا اور جو مزاحمت کررہے تھے ان میں سے چند کو ٹارگٹ کیا گیا، جس کے بعد سوات کے عوام کی جانب سے مزاحمت کی طور پر احتجاج شروع ہوا، اور اس احتجاج میں سابقہ وفاقی وزیر مراد سعید بھی شامل ہوئے ، ان کے بیانات اور احتجاجی مارچ کے بعد انتظامیہ نے طا ل ب ان کو علاقہ سے نکلنے کا کہا ، جس کے 36 گھنٹوں بعد ڈی ائی جی اور ڈی پی او نے پولیس کے ہمران ان علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں پر تصاویر ویڈیوز بناکر میڈیا کودیدیں ۔ اور ساتھ پریس ریلیز جاری کرکے کہا گیا کہ طا ل ب ان ان علاقوں سے نکل گئے ہیں ، جس پر سوات کے عوام ، قومی جرگہ، اور مراد سعید نے خوشی کااظہار کیا ۔لیکن ابھی چند دن ہی ہوگئے تھے کہ سوات کے تحصیل برہ بانڈی میں جے یو ائی کے مقامی رہنما ادریس خان کو ریمورٹ کنٹرول بم دھماکہ سے ان کی گاڑی اڑادی گئی ، جس مین وہ خود اور دیگر ان کےساتھ بیٹھے چھ افراد جاں بحق ہوئے ، اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی گئی ا ور کہا گیا کہ مطلوب افراد میں شامل تھا ۔
ادریس خان کے بعد یہ سلسلہ نہ تھم سکا ، بائی پاس سڑک پر باپ بیٹے کو فائرنگ کرکے مارا گیا، سیکورٹی فورسز نے ایک پریس ریلیز جاری کردی ،جس میں لکھا گیا تھا کہ جن افراد کو مارا گیا ہے ایہ دہشتگردی ، بم بلاسٹ ، سہولت کار اور دیگر جرائم میں ملوث تھے ۔ لیکن ان کے فیملی نے ان الزامات کو مسترد کردیا اور احتجاج بھی کیا۔ باپ بیٹے کی فائرنگ سے ہلاکت کی ویڈیوز انے کے بعد ایک مرتبہ پھر سوات کے عوام میں اشتعال پھیل گیا اور وہ احتجاج پر مجبور ہوئے ۔
سوات کے حالات اس وقت مزید خراب ہوئے جب تحصیل چارباغ کے علاقہ الہ باد میں سکول وین پر فائرنگ کی گئی اور یہ فائرنگ ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد نے کی ۔ جس میں ڈرائیور جاں بحق ہوا، اور دو سکول بچے شدید زخمی ہوئے، واقعہ کے فوری بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، اور یہ احتجاج پورے سوات میں پھیل گیا ، سوات اولسی پاسون کے زیر اہتمام احتجاج نے لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کردیا ، ہزاروں لوگوں نے نشاط چوک میں پرامن احتجاج کیا ، اس احتجاج میں پہلی مرتبہ ایمل ولی ، منظور پشتون، اور مشتاق احمد نے شرکت کی ، جس نے کھل کر اداروں پر تنقید کیا اور سوات کے امن کو خراب کرنے کی ذمہ داری اداروں پر ڈال دی۔
مینگورہ ، کبل ، کانجو، چارباغ ، مٹہ اور خوازہ خیلہ بریکوٹ میں احتجاج کے بعد حکومت نےمبینہ طورپر ایک مرتبہ پھر ط ل ب ان کو علاقہ خالی کرنے اور افغانستان منتقل ہونے کا کہا اور اس اعلان پر فوری طورپر کنالہ ، پیوچار ، اور دیگر علاقوں سے ط ل ب ان نکل ، دو دن قبل پولیس نے ان علاقوں میں سرچ اپریشن کیا اور ان کے ٹھکانوں کو مسمار کیا ۔ اب یہاں سے سوالات عوام کے ذہنوں میں بننے شروع ہوگئے ہیں کہ اگر ط ل ب ا ن سوات سے اگست میں نکل گئے تھے تو پھر واپس کیسے ائے ، اور اگر اج نکل گئے ہیں تو پر واپس ائیں گے یا نہیں ؟
موجودہ بے چینی کے صورتحال میں اب عوام کو شک ہورہا ہےکہ کہیں ط ل ب ا ن واپس 2009 کی طرح نہ اجائیں اور سوات ایک مرتبہ پھر تاریک دور میں نہ چلا جائیں ۔ یہ سوال جب بھی ہم نے اعلی حکام سے کیا تو انہوں نے ہمیشہ اس کا انکار کیا، اعلیٰ حکام کہتے ہیں کہ ط ل ب ان سے جو معاہدہ ہوا ہے اس کے رو سے وہ پرامن رہیں گے ، اوریہی بات وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بریسٹر سیف کررہے ہیں ، حکومت دیکھ رہی ہے اور اس پر ایکشن بھی لے گی ۔حکومت کے اعلانات اور وعدے اپنی جگہ لیکن اج بھی میڈیا کے نمائندوں ،سوشل میڈیا کے نمائندوں اور اداروں جبکہ تاجربرادری کو دھمکی امیز پیغامات مل رہے ہیں اور ان کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ ان کی اواز بنیں ۔
1,311 total views, no views today