تحریر . . . . . زبیر توروالی
سکول کے دنوں 14 اگست کے لیے اپنے کمرہ جماعت سجاتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر اس تاریخ کو ہر کمرے کا معانہ کرتے تھے اور جو کمرہ سجاوٹ میں پہلے نمبر پر اتا انکو انعام ملتا تھا۔ یہ سجاوٹ طلباء اپنی جیب خرچ سے کرتے، مزہ اتا تھا کہ ہمیں پاکستان کی تاریخ کی خبر تھی اور نہ ہی اس کے بن جانے کے بعد کے مسئلوں سے ہم اشنا ہوئے تھے۔ استاد مطالعہ پاکاستان پڑھاتے اور ہم سیدھا سیدھا دل پر لیتے اور اس پر عمل کرتے۔ کسی بھی وردی والے کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ سکول یا کالج کی اپنی یونیفارم ہمیں سب وردیوں سے اچھی اور معتبر لگتی تھی۔ خاکی یونیفارم کو تو بس خال خال ہی دیکھتے۔ سردیوں میں جب ماموں کے ہاں نوشہرہ جاتے تو باغوں میں گھومتے گھومتے کسی فوجی بیرکس کے انگن سے گزرنا پڑتا۔ فوجی جوان ہمیں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں کبھی کبھی وہاں چائے ضرور پلاتا۔ ہم اسے دیکھ کر میجر عزیز بھٹی شہید کو دعائیں دیتے کیوں کہ اس وردی میں ہم نے اس سے پہلے صرف عزیز بھٹی شہید کی تصویر کتابوں میں دیکھی تھی۔
ہماری تاریخ گھر سے شروع ہوتی اور سکول کے کمرے میں ختم ہوجاتی۔ زندگی بے خبر خوشی خوشی گزرتی۔ سب سے بڑے مسئلوں میں ہوم ورک اور استاد صاحب کی لاٹھی ہوا کرتی تھی۔ بیچ میں پھٹے کپڑوں اور پلاسٹک کے جوتوں کی چھینتا اکثر رہتی۔ اس سے اگے ہماری سوچ پہنچتی اور نہ ہی کوئی استاد اس سوچ کو اگے بڑھنے دیتا۔
گھر میں نانی/دادی اس دن کو اپنی زبان میں ”تاج پوشی“ کا دن کہتی۔ کہیں کہیں جناح صیب کی کوئی کہانی سناتی کہ میری نانی نوشہرہ میں رہتی اور اس بارے میں کچھ انکھوں دیکھا حال جانتی۔ اپنے پڑوس میں ہندوؤں کی کہانیاں ستانی۔ ان کہانیوں میں انکے پڑوسی ہندو ہمیشہ ایک ہیرو ہی ہوتا۔
کبھی کبھی رو رو کر تقسیم یا آزادی کے وقت کی دکھ بھری کہانیاں بھی سناتی۔ ان کہانیوں میں اس پڑوسی ہندو کی کہانی شامل ہوتی جس کو لوٹا گیا ہو یا اس کے خاندان کے بندوں کو مارا گیا ہو۔ نانی کو خبر تک نہیں تھی کہ ہندو کے ساتھ یا ان کے برتن میں کھانا جائز نہیں۔ اس بات کا ان کو پتہ 1946ء کے آس پاس لگا جب پہلی بار مجلس احرار کے کسی رہنما نے تقریر کی اور نانی نے اسے سن لیا۔ پھر جب ازادی نصیب ہوئی تو نانی وہ کہانی سناتی تھی کہ کس طرح اسکے ایک ہندو پڑوسی نے اپنا سارا زیور اور دوسری اشیا انکے گھر امانت چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ بڑی نانی نے ان بوریوں کو گھر میں سمبھال رکھا۔ پھر کچھ مہنیوں بعد ایک گروہ ایا۔ اس نے بڑی نانی سے وہ ساری بوریاں اور دیگر سامان یہ کہہ کر لیا کہ حکومت نے ان کو بھیجا ہے۔ اس کے بعد اس سامان کی کوئی خبر ملی اور نہ ہی اس پڑوسی ہندو کی جس نے یہ سامان یہاں رکھا تھا۔ جب نانی اس ہندو پڑوسی کے بارے اچھی کہانی سناتی تو ہمیں برا لگتا اور ہم کہتے کہ نانی ہندو کی تعریف نہیں کرتے۔ نانی خاموش ہوجاتی اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
پاکستان بنتے چالیس سال ہوگئے تھے۔
بچپن کے بعد جب سے اخبارات، رسائل اور کتابیں پڑھنا شروع کییں تو پریشانیاں بڑھنے لگیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری بے چینیاں بھی بڑھنے لگیں۔ پاکستان سے محبت کسی قدر کم نہیں ہوئی لیکن اس کے ساتھ جو ہوتا رہا اسے گویا اپنے محبوب کے ساتھ بلادکار سمجھتے رہے۔
آزادی کے معانی ہمارے لیے بدلتے گئے۔ وہ ساری وردیاں ایک وردی کے سامنے ناقص لگنے لگیں۔ ذہین سوالات سے بھر گئے مگر ان کا اظہار نہیں کرسکے۔ اگر کہیں کیا بھی تو معیوب ہی ٹھرے۔ لکھنا شروع کیا کہ اس سے کچھ افاقہ ہوجائے۔ لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ کچھ پڑھنا بھی جاری رہا۔ پھر کیا تھا۔ ہماری بے چینیاں مزید بڑھنے لگیں۔ ان کا مداوا کبھی اسلامی نظام کی خواہش میں ڈھونڈا تو کبھی اشتراکیت میں۔ کبھی کسی تحریکی مولوی کے پیچھے ہولیے تو کبھی کسی کونے میں بیٹھ کر مساوات و معاشی اشتراک کے خوابوں کو دیکھنے لگے۔ اگے جاکر اس اسلامی نظام کی خواہش کے پیچھے اصل محرک کا پتہ چل گیا تو سینہ پیٹنا شروع کیا۔ اشتراکیت کی خام خیالی سے نکل کر روش خیالی کی طرف مڑ گئے۔ روشن خیالی میں پناہ لی مگر بے چینیاں نہ تھمیں۔
تلاش جاری رہا اور علم کے سمندر کی اتھا گہرائیوں سے حیرانی میں مزید اضافہ ہوا۔ ہر شعبے میں مغز مارنے اور گھسنے کی کوشش شروع کی۔ کوئی بھی نظریہ اٹل نہیں لگا اور خود کو معلق پایا۔ ایسے میں ایک چھوٹے علاقے کے لوگوں کی فلاح و ترقی کے لیے اپنے طور پر کوشش شروع کی۔ اس میں تھوڑا سا سکون ایا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ کوشش وسیع ہوتی گئی اور یوں محوسس ہوا کہ بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اب حالت یہ کہ زندگی کے اختصار کا خوف ایک طرف، علم کی تلاش دوسری طرف جبکہ تیسری طرف روزمرّہ کے معاش کا اڙدھا کھڑا ہے اور چوتھی طرف کم مایہ اور حاشیوں پر پڑے نوجوانوں اور لوگوں کا غم کھائے جارہا ہے۔
چارسو ان مشکلات کا مقابلہ اپنی جگہ کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد ہے اور ہمیں اب نتیجے سے ذیادہ لائحہ عمل اور پروسس میں مزا انے لگا ہے مگر کیا کرے اس بڑے زندان کا جس میں خود کو مقید محسوس کرتا ہوں۔ ایک خوف ہے کہ جان نہیں چھوڑتا۔ زبان کھول نہیں سکتے اور نہ ہی اب قلم آزادانہ لکھ سکتا ہے۔ اگر کچھ ہٹ کر لکھا بھی جائے تو اسے چھاپنے نہیں دیا جاتا۔ اور اگر کچھ چھپ بھی گیا تو دروازے تک لوگ اکر پوچھ گچھ شروع کرتے ہیں۔ خود ہم ہمیں کو اب مشکوک و مطلوب لگنے لگے ہیں۔
ایسے میں جو بچے اب جدید طرز پر گانے یا ملی نغمے لگا کر آزادی آزادی کرتے ہیں تو ان پر رشک اتا ہے اور اپنے بچپن کے دن یاد اتے ہیں۔ خدا کرے کہ ان کوہماری سوچ نہ لگے اور نہ ہی وہ کسی فکری سانحے سے گزرے۔ بس امیر شہر جو کہے اس پر سر دھنتے رہے۔
ہم اور ہمارے پیشرو تو اس دن کو کوئی نام بھی نہیں دے سکے۔ کسی نے جشن آزادی کہا تو کسی نے ”داغ داغ اجالہ“ گایا۔ کسی کے نزدیک یہ آزادی کا دن ٹھرا تو کسی نے اسے بٹوارے یا تقسیم سے یاد کیا۔ ہمارے اور ہمارے اجکل کے بچّوں کے کے لیے یہ اب ”14 اگست“ سے مشہور ہے۔ اسے تہورا کرے، عید کرے کہ کوئی میلہ و جشن۔ اب تک سمجھ نہیں ایا۔
اج اپنے 4 سالہ بچے سے پوچھا پاکستان کیا ہے تو اس نے جھنڈا دیکھایا۔ پھر پوچھا پاکستان کدھر ہے تو اس نے کہا ، ”دُکان میں“۔ وہ پاکستان کے جھنڈے کو ہی پاکستان سمجھتا ہے کہ بچے علامات سے ہی سیکھتے ہیں لیکن مجھے پاکستان واقعی ایک دُکان لگتا ہے جہاں دُکاندارصرف اپنی مرضی کی چیزیں بیچتے ہیں۔ جہاں رہنما بھی تجارت کرتا ہے اور محافظ بھی۔ ہر کوئی اپنا اپنا چورن بیچتا ہے اور غریب گاہک کے پاس اور کوئی راستہ نہیں سوائے دُکاندار کی شان میں قصیدے پڑھنے کے۔ بس میرا محبوب تو سلامت رہے!
1,829 total views, 2 views today