ڈاکٹر شاہدعالم
4 سالہ بچی جسمانی زیادتی کا شکار، 5 سالہ بچہ دریائے سوات کے بے رحم موجوں کی نظر، 6 سالہ بچہ جنسی درندگی کا شکار، کرش مافیہ کی وجہ سے بچہ پانی میں ڈوب گیا۔ موٹر سائیکل یا گاڈی کی ٹکر سے 4 سالہ بچہ جانبحق، ڈرایئور گرفتار۔ فلانہ پولیس سٹیشن میں 5 یا 7 سالہ بچہ رو رہا ہے ماں باپ کی تلاش جاری۔
روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں ملاکنڈ ڈویژن اور خاص کر سوات کے نیوز پیجز پر ملتی ہیں اور پوسٹ پر ہم “اللہ والدین کو صبر دے” لکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کیا ہوا تھا اور اسکی روک تھام کیسے کرے۔۔۔
ان بچوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثات کے زمہ دار صرف اور صرف انکے والدین اور لاقانونیت ہے اور کوئی نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس طرح بیرون ممالک میں 9 سال سے کم بچے کو بغیر کسی بڑے کی نگرانی گھر سے باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہے تو یہ قانون ہمارے ملک اور معاشرے میں کیوں نہیں ہے؟
گھر میں بچوں کے شور و شرارت سے تنگ آ کر انہیں ہاتھ میں پاپڑ خریدنے کے لئے 10 روپے تھما کر انہیں اس بے رحم دنیا میں باہر بھیجنا دنیا کے کونسے مہزب معاشرے میں ہوتا ہے؟
کیوں ہر دن ہمارے معاشرے میں 5 سے 10 بچے والدین کے غفلت کی وجہ سے ان حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں؟
کیوں ہمارے عوام میں اس بارے شعور نہیں؟
کیوں انتظامیہ اس بارے میں سخت ہدایات اور قوانین جاری نہیں کرتا؟
کیوں ہمیں روزانہ پھول جیسے بچوں کی لاشیں دیکھنے کو ملتی ہیں؟
اگر بچوں کی دیکھ بال اور نگرانی نہیں کر سکتے تو خدارا بچے پیدا ہی مت کرے۔
خدارا جہالت سے نکل کر مہذب معاشرہ بن کر سامنے آئے۔
1,382 total views, 2 views today